پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ
حکومت نے آخرکار ایک فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے جرم میں غداری کا مقدمہ شروع کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں باضابطہ طور پر درخواست دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کیا ہمارے ملک میں تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہونے جا رہا ہے۔ کیا ایک بارسوخ مجرم جس کا تعلق پاکستان کے سب سے طاقتور ادارے فوج کے ساتھ رہ چکا ہے اس کے خلاف آئین سے بغاوت کے مقدمہ میں کیا عدلیہ جرم ثابت ہونے کی صورت میں بلاخوف و خطر سزا دے ڈالے گی۔ مرتضیٰ برلاس نے کہا تھا …؎
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی ۔۔۔ کبھی تو ان کا حساب ہو گا
کیا وہ وقت آ پہنچا ہے کہ واقعی آئین توڑنے والوں کا احتساب اب ہمارے ملک میں ایک خواب نہیں رہے گا۔ جنرل پرویز مشرف نے تو ایک دفعہ نہیں بلکہ دو مرتبہ پاکستان کے آئین کو توڑا۔ پہلی دفعہ 12 اکتوبر 1999ء کو انہوں نے نواز شریف کو آئینی حکومت ختم کرکے خود اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ دوسری دفعہ 3 نومبر 2007ء کو غیر آئینی طور پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے تمام ججوں کو انکے عہدوں سے الگ کر دیا گیا اور ملک میں پہلی مرتبہ عدلیہ کے ادارے کو تباہ کرنے کیلئے آئین توڑنے کا گھنائونا جرم کیا گیا۔ ہمارے ملک میں یہ عجیب رسم ہے کہ سیاستدانوں کو تو پاکستان توڑنے والے فوجی جرنیلوں کے خلاف بھی کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اگر دو مرتبہ آئین توڑنے والے جنرل پرویز مشرف بھی آئین توڑنے کی سزا سے بچ نکلے تو پھر اس ملک میں آئین شکنی کا راستہ بند نہیں ہو گا۔ اگر ملک سے غداری جیسے سنگین جرم میں بھی کسی مجرم کو سزا کا خوف نہ ہو تو پھر ہمارے وطن میں ملت فروشی کا کھیل جاری رہے گا۔ عدلیہ کے خلاف 3 نومبر 2007ء کو شب خون مارنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ سپریم کورٹ پرویز مشرف کے وردی میں صدارتی الیکشن لڑنے کو غیر آئینی قرار دے دیگی اور جنرل مشرف نے جو آئندہ مزید پانچ سال تک ملک کے صدر رہنے کا خواب دیکھ رکھا ہے وہ پورا نہیں ہو گا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ایک فوجی آمر نے صرف اپنی کرسی بچانے کیلئے عدلیہ کے پورے ادارے کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کو اصل خوف تو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری سے تھا۔ جناب افتخار محمد چودھری سے جان چھڑانے کیلئے 3 نومبر 2007ء سے پہلے 9 مارچ 2007ء کو بھی ایک کوشش کی جا چکی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اردگرد باوردی فوجی جرنیلوں کو بٹھا کر جناب افتخار محمد چودھری کے سامنے ان کے خلاف جھوٹے الزامات کی ایک فہرست رکھی گئی اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں یا سپریم جوڈیشل کونسل میں الزامات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔ چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری نے بے پناہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔ جناب افتخار محمد چودھری کو اپنے اس انکار کی بہت بھاری قیمت دینا پڑی۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک حاضر سروس چیف جسٹس پاکستان کو انکے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ انکے ٹیلی فون کاٹ دئیے گئے اور گھر سے باہر پولیس کا سخت پہرہ بٹھا دیا گیا۔ چیف جسٹس صاحب نے جب سپریم کورٹ میں جانے کی کوشش کی تو راستے میں پولیس نے ان کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور ان کا کوٹ بھی پھاڑ دیا گیا۔ حکومت کے ان مذموم ہتھکنڈوں نے جناب افتخار محمد چودھری کو راتوں رات پوری قوم کا ہیرو بنا دیا اور پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت جو پہلے بھی عوام میں انتہائی غیر مقبول تھی قوم کی نظروں میں اور زیادہ ناپسندیدہ ہو گئی۔ بہرحال جب سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ سے جناب افتخار محمد چودھری اپنے منصب پر بحال ہو گئے تو جنرل پرویز مشرف اور بھی خوفزدہ ہو گئے کہ اب ان کا فوجی وردی میں صدر بننا ممکن نہیں رہا۔ چنانچہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے غیر آئینی مقاصد کی راہ میں رکاوٹ عدلیہ سے نجات حاصل کرنے کیلئے 3 نومبر 2007ء کو آئین سے ماورا ایک اور اقدام کر دیا اور جس کیلئے آئین کو ایک بار پھر معطل کر دیا گیا۔ ملک میں نیا عبوری آئینی حکم نافذ کر دیا گیا جس کے تحت حکومت نے اپنے پسندیدہ ججوں کو نیا حلف اٹھانے کیلئے کہا۔ آئین کے تحت کام کرنے والی عدلیہ کا گلا دبا دیا گیا۔ اب 6 سال بعد جنرل پرویز مشرف کیخلاف 3 نومبر 2007ء کو آئین سے بغاوت کرنے کے جرم میں مقدمہ سپریم کورٹ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ آئین اور قانون کی بالادستی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ آئین توڑنے والوں کو انکے اس سنگین جرم کی سزا ضرور ملنی چاہئے۔ عدلیہ کی آزادی کیلئے وکلا، صحافیوں، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے طویل جدوجہد کی ہے۔ خود عدلیہ بھی کئی آزمائشوں سے گزری ہے۔ اب وقت ہی یہ فیصلہ کریگا کہ کیا اندرونی و بیرونی دبائو کا مقابلہ کرتے ہوئے کیا پرویز مشرف کو آئین شکنی کے جرم میں سزا دی جا سکے گی یا نہیں۔ اب عدلیہ اور حکومت خود بھی امتحان گاہ میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس امتحان میں کیسے سرخرو ہوتے ہیں۔