کرکٹ کی مخالفانہ فضا اور بیچارہ مصباح
پنجابی زبان کا ایک محاورہ ہے ’’ڈگی کھوتی توں غصہ کمہار تے‘‘ (گری گدھی سے، غصہ کمہار پر) ۔ یہ محاورہ آج ہمیں اس لئے یاد آ رہا ہے کہ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں کھیلی گئی کرکٹ میں پاکستان کو جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ہار کی جس ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا اس کا سارا غصہ پاکستان کی ٹیم کے کپتان بیچارے مصباح الحق پر نکالا جا رہا ہے اور شکست کا سارا ملبہ، ناحق، مصباح الحق کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے بالکل اسی طرح جیسے کہا گیا ہے ع
اُسے چُھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
گویا ان سارے میچوں میں جس واحد کھلاڑی نے مسلسل پرفارم کیا اور ٹیم کا کچھ بھرم رکھا وہی موردِ الزام ٹھہرا، اس لئے کہ وہ بدقسمتی سے اس ناگفتہ بہ ٹیم کا کپتان تھا۔ کسی نے یہاں تک بھی خیال نہ کیا کہ آپ اگر اپنے باورچی کو پکانے کیلئے دال اور دال کا سامان دیں گے تو اس سے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اس سے آپ کو پلائو پکا کر کھلائے۔ جیسی ریسپی ویسا پکوان، جیسا منہ ویسا تھپڑ۔ اس نام نہاد شیروں کی ٹیم کے ساتھ بھی یہی ہونا تھا جو سامنے آیا۔ کسی نے ٹیم بنانے والوں سے یہ تک نہیں پوچھا کہ ٹیم میں ایسے کھلاڑیوں کو منتخب کیوں کیا گیا جن کے دل گردے اتنے کمزور تھے کہ میدان میں اپنے مدمقابل کو دیکھ کر ان کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ جیسے دُھلے دُھلائے میدان میں اُترے ویسے ہی ’’صاف ستھرے‘‘ واپس لوٹ آئے۔ کیا دلیری ہے، کیا بانکپن ہے، اس میں کپتان کا کیا قصور ہُوا اور یہ بھی کیا بات ہوئی کہ اس خفت کو مٹانے کیلئے اگلے روز ٹی وی کے ایک پروگرام میں پی سی بی کے ایک فاضل ممبر فرما رہے تھے کہ اس شکست کی وجہ یہ ہوئی کہ ’’شیروں‘‘ کے اس جتھے کا لیڈر ایک گیدڑ تھا، تو یہ کہاں کا انصاف ٹھہرا کہ ایک کھلاڑی جو ہر میچ میں مدمقابل کے آگے مردانہ وار ڈٹا رہا اور عمدہ کارکردگی دکھا کر ٹیم کو بحرانوں سے نکالا یا نکالنے کی کوشش کی وہ گیدڑ کہلایا اور وہ کھلاڑی جن کی میدان میں آتے ہی پتلونیں بھیگ گئیں اور بغیر کچھ کئے واپس پویلین لوٹ گئے ماشاء اللہ وہ شیروں کے لقب سے سرفراز ہوئے اور یہ معاملہ کرکٹ کے حلقوں تک محدود نہیں، اسی طرح کے تبصرے اور تبرے ہمارے میڈیا، بالخصوص ٹی وی کے پروگراموں میں بھی سُنائی دے رہے ہیں جن میں زیادہ تر نشانہ مصباح الحق کو ہی ٹھہرایا جا رہا ہے اور ہر تبصرہ کرنے والا اپنے نام نہاد تجربے اور دانش کے دریا بہا رہا ہوتا ہے۔ گویا اگر وہ بذاتِ خود میدان میں ہوتا، تو یہ بازی ہی اُلٹ کے رکھ دیتا۔ بہرحال جو کہا خوب کہا۔
یہاں ہمیں اپنے علاقہ کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے آپ کو بھی سُنائے دیتے ہیں کہ آپ بھی محظوظ ہو سکیں۔ میانوالی میں ایک زمانے میں کبڈی کا کھیل بہت مقبول تھا، آئے روز مختلف دیہاتوں کی ٹیموں کے درمیان میچ ہوا کرتے تھے اور یہ میچ ان دیہاتیوں کے اپنے ہی بنائے ہوئے کھلے ڈُلے، فری سٹائل قاعدوں کے مطابق کھیلے جاتے تھے۔ ایک دفعہ اسی طرح کا ایک میچ ہو رہا تھا تو تماشائیوں میں موجود ایک نام نہاد کبڈی کا ماہر شخص باہر سے چیخ چیخ کر اپنے کھلاڑیوں کو کھیل کے طرح طرح کے دائو پیچوں کے حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے چلائے جا رہا رہا تھا جیسے کبڈی ڈالنے والے اس مخالف کھلاڑی کو قینچی لگائو، کلائی سے پکڑو، اڑنگا لگا کر اس کی ٹانگوں کو قابو کرو، وغیرہ وغیرہ اور جب کوئی کھلاڑی ایسے نہ کر پاتا تو زور زور سے اسے لعن طعن کرتا۔ اس پر ایک کھلاڑی نے آخر زچ ہو کر رہیں سے پکار کر کہا کہ تم اتنے سورما ہو تو خود میدان میں آ جائو۔ اس پر وہ شخص سخت طیش میں آ گیا، کپڑے اتارے اور جھٹ لنگوٹ کس کر میدان میں جا کھڑا ہوا۔
اور پھر کرنا خدا کا یہ ہُوا کہ وہ جب کبڈی ڈالتے مخالفین کی جانب بڑھا تو ایک مخالف کھلاڑی نے اسے بغلوں سے پکڑ کر بلکہ جکڑ کر زور سے زمین پر دے مارا اور اس کی چھاتی پر سوار ہو گیا جس سے نہ صرف اس کی ہڈی پسلی ایک ہو کر رہی گئی بلکہ اس کی ایک ٹانگ بھی ٹوٹ گئی اور پھر جب چارپائی پر ڈال کر اسے میدان سے ہسپتال لے جایا جا رہا تھا تو اس نے نہایت درد بھرے انداز میں کہا کہ مجھے آج پتہ چلا ہے کہ کبڈی کے اس کھیل میں میدان کے باہر اور میدان کے اندر میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ گویا کہنا آسان اور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور پھر اس نے وہاں موجود اپنے بھائی کو ڈانٹ کر کہا کہ میرا تو یہاں دماغ چل گیا تھا آپ ہی مجھے روک لیتے تو میرا یہ حال تو نہ ہوتا۔ تو کاش ہمارے ٹی وی کے یہ دانا مبصرین بھی سمجھ سکیں کہ کرکٹ کے اس کھیل میں بھی میدان سے باہر بیٹھ کر چارہ گری بھگارنا اور میدان کے اندر کھڑے ہو کر کھیلنے میں بڑا فرق ہوتا ہے، یہ وہی جانتا ہے جس پر گزرتی ہے۔
مصباح بیچارہ تمام تر صلاحیتوں کے باوجود بدقسمتی سے ہمیشہ سے مخالفانہ بلکہ معاندانہ رویوں کا شکار رہا ہے۔ کرکٹ کھیلنے کا جب اس کا پرائم ٹائم تھا تو اسے باہر بٹھائے رکھا گیا کہ اس کی کوئی سفارش نہ تھی اور کچھ بااثر لوگ اس لئے اس کے مخالف تھے کہ وہ اس کی جگہ، اپنے لگتے چہیتے کھلاڑیوں کو کھیلانے میں کوشاں رہے۔ مصباح کے بجائے یہاں کوئی اور ہوتا تو یقیناً بددل ہو کر میدان چھوڑ جاتا۔