مشرف کی معافی کی درخواست آئی تو فیصلہ قانون کے مطابق کرونگا: صدر
اسلام آباد (جاوید صدیق) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے یہ خیال کبھی میرے ذہن میں نہیں آتا میں ماضی کے صدور کی طرح بااختیار یا طاقتور نہیں‘ میں اپنے موجودہ آئینی کردارپر بالکل مطمئن ہوں۔ گذشتہ روز ایک غیر رسمی نشست میں نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے صدر نے کہا اب ایوان صدر میں کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہوتی۔ صدر سے استفسار کیا گیا مشرف کو عدالت سے سزا ہوتی ہے اور وہ معافی کی درخواست آپ کو بھیجیں تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا تو صدر نے کہا جو بھی معاملہ میرے سامنے آیا اسکا آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ ان سے پوچھا گیا تو چونکہ ایوان صدر میں کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہوتی اور نہ ماضی کی طرح یہاں کوئی گہما گہمی ہوتی ہے تو اب ایوان صدر کے اخراجات تو بہت کم ہو گئے ہوں گے تو صدر نے کہا ہم نے حکومت کے فیصلے کے تحت اخراجات میں 30 فیصد کمی کر دی ہے۔ میں نے ایوان صدر کے عملے کے 150 افراد کو کم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن کوشش یہ ہے جو چھوٹے سرکاری ملازم ہیں انہیں کوئی نقصان نہ ہو۔ صدر نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ایوان صدر 471 ایکڑ پر تعمیر کیا گیا ہے اس کی دیکھ بھال کے لئے بھی بڑی تعداد میں اہلکار درکار ہیں۔ صدر نے کہا میری کوشش ہے ایوان صدر کے اخراجات میں کمی لائی جائے اور سادگی اختیار کی جائے۔ اپنی دلچسپیوں کے حوالے سے صدر نے کہا میں تعلیم کے شعبہ میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے اسلام آباد میں کچھ یونیورسٹیاں بہت اچھی ہیں اور ان کا معیار تعلیم بھی بہت اچھا ہے۔ مجھے احساس ہوتا ہے یہاں کے مقابلے میں کراچی کی یونیورسٹیوں میں تعلیم کا معیار گر رہا ہے۔ میری کوشش ہے تمام یونیورسٹیوں میں معیار تعلیم‘ تحقیق اور تدریس کی کوالٹی بہتر بنائی جائے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے متعلق پر صدر نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور بتایا وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے جلد ایک ایڈوائزری کمیٹی کا اعلان کریں گے۔ صدر سے استفسار کیا گیا ماضی میں یہ دیکھا جاتا رہا ہے صدر کے ذریعہ آرڈیننس بڑی تعداد میں جاری کرائے جاتے تھے‘ اپوزیشن کا شکوہ ہوتا تھا ایوان صدر آرڈیننس جاری کرنے کی فیکٹری بن گیا ہے تو صدر نے کہا موجودہ حکومت خود محتاط ہے وہ میرے پاس کوئی آرڈیننس نہیں بھیجتی وہ تو قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ سے رجوع کر رہی ہے۔ صدر سے پوچھا گیا کیا اپوزیشن کے ارکان ان سے ملاقات کر سکتے ہیں تو صدر نے کہا کیوں نہیں وہ جب آنا چاہیں ان کے لئے دروازے کھلے ہیں‘ میں کسی پارٹی کا نہیں پاکستان کا صدر ہوں‘ میرا بنیادی کام وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ فاٹا کی چونکہ خصوصی حیثیت ہے اس لئے اس کے معاملات میرے سامنے آتے ہیں‘ میری خواہش ہے جلد فاٹا کا دورہ کروں۔ ان سے پوچھا گیا ان کا تعلق کراچی سے ہے کیا کراچی میں آپریشن کے بعد حالات بہتر ہو رہے ہیں تو صدر نے کہا میرے خیال میں بہتر ہو رہے ہیں لیکن کراچی میں امن و امان کی مکمل بحالی کے لئے وقت لگے گا۔ صدر سے پوچھا گیا ان کی رائے میں کیا جمہوریت پاکستان میں مستحکم ہو رہی ہے یا اسے اب بھی کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تو صدر نے کہا اب ان شاء اللہ پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہوتی جا رہی ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اب یہ احساس رکھتی ہیں انہیں جمہوریت کو مستحکم بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ صدر نے کہا پاکستان کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لئے پوری قوم کو محنت اور جہد مسلسل سے کام لینا ہو گا۔ اس سوال پر کہ فریضہ حج کی ادائیگی پر بعض ناقدین نے یہ اعتراض اٹھایا آپ نے اور آپ کے اہلخانہ اور آپ کے عملہ نے سرکاری خرچ پر حج کیا تو صدر نے کہا میرے حج کے اخراجات میرے بیٹے نے اٹھائے اور عملہ کے ارکان نے خود اخراجات برداشت کئے۔ سعودی عرب میں تو ہم سرکاری مہمان تھے وہاں تو اخراجات ہوئے ہی نہیں۔