• news

جنرل راحیل شریف معتدل فوجی افسر، فوج کو اندرونی چیلنجوں کیلئے تیار کرنے کے ماہر

اسلام آباد (نیٹ نیوز/ رائٹر) بّری فوج کے نامزد سربراہ جنرل راحیل شریف پاک فوج کو درپیش اندرونی چیلنجوں کے لئے تیار کرنے کے لئے کئی سال پر محیط کوششوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق جنرل راحیل شریف اپنے فوجی کریئر میں ایسے افسر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں جنہوں نے گذشتہ کئی سال فوج کو جدید خطوط پر تربیت دینے اور اسے ملکی سرحدوں کے اندر درمیانے درجے کی لڑائیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے تیار کرنے کے لئے وقف کئے۔ جنرل راحیل نے گذشتہ چند برس فوجی صدر دفاتر میں فوج کے تربیتی شعبے کے سربراہ کے طور پر گزارے۔ اس دوران ان کی کارکردگی کو بہت اعلیٰ درجے کی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ جنرل راحیل نے تقرری کی اس قلیل مدت میں فوج کے قریباً تمام اہم تربیتی کورسز کو از سر نو مرتب کر کے انہیں جدید ضروریات سے ہم آہنگ کیا۔ خاص طور پر سرحدوں کے اندر امن کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لئے فوج کو تیار کرنے کے لئے جنرل راحیل شریف کے تیار کردہ تربیتی مینولز (manuals) خاصے پسند کئے گئے۔ فوجی قیادت نے ان کتابچوں کو اعلیٰ معیار کا حامل قرار دیا۔ پاکستان کے اندر اور باہر فوج کو ’لو انٹنسٹی کنفلکٹ‘ (Low Intensity Conflict) کے لئے تیار کرنے پر ان کے تحریر کردہ مقالوں کو خاصی پذیرائی ملی۔ اس سے پہلے جنرل راحیل شریف فوج کی بہت پسندیدہ تصور کی جانے والی پوسٹنگ کمانڈنٹ پاکستان ملٹری اکیڈمی تعینات رہے اور اس دوران انہوں نے اکیڈمی کے نصاب میں بھی بعض کلیدی تبدیلیاں کیں۔ ان تبدیلیوں کا محور بھی نئے فوجی افسروں کو ملک کے اندر لڑائی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے تیار کرنا تھا۔ کور کمانڈر گوجرانوالہ کے طور پر جنرل راحیل نے اپنی اسی دلچسپی کو عملی شکل دی اور کور میں ایسی تربیتی مشقیں متعارف کروائیں جن کا محور ’لو انٹینسٹی کانفلکٹس‘ تھے۔ بعض فوجی افسروں کا کہنا ہے کہ مستقبل کے چیلنجوں کو سمجھنے اور ان کے لیے فوجی ردعمل کو بطریقِ احسن استعمال کرنے کی صلاحیت کے باعث موجودہ حالات میں جنرل راحیل کی تقرری خاصی اہم ہے۔ جنرل راحیل کے چناؤ میں کچھ کردار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کے ساتھ دیرینہ تعلقات کا بھی ہو سکتا ہے۔ جنرل بلوچ وزیر اعظم نواز شریف کی کابینہ میں قبائلی اور سرحدی امور کے وفاقی وزیر ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی معاملات پر نواز شریف بلوچستان کے اس سابق کور کمانڈر کی بات بہت غور سے سنتے ہیں۔ جنرل راحیل اور جنرل بلوچ میں تعلق اتنا قریبی ہے کہ عبدالقادر بلوچ نے ایک بار نواز شریف سے کہا کہ وہ جتنا بھروسہ جنرل راحیل پر کرتے ہیں، شائد اپنی اولاد پر بھی نہ کریں۔ جنرل راحیل کو کمانڈر تعیناتی کے وقت لیفٹنٹ جنرل عبدالقادر بلوچ کے سٹاف افسر رہے ہیں۔ تاہم بعض دیگر فوجی افسر سمجھتے ہیں کہ ان کی تعیناتی میں کچھ کردار ان کے خاندانی، ذاتی اور علاقائی پس منظر کا بھی ہے۔ جنرل راحیل شریف میاں نواز شریف کی طرح لاہور کے ایک خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے والد میجر شریف اور وزیراعظم نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کے درمیان تعلقات کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ اپنی خاندانی اور علاقائی روایات کے عین مطابق جنرل راحیل ایک ’کھلے ڈلے‘ افسر خیال کئے جاتے ہیں جو اپنا مافی الضمیر کسی بھی موقع پر، کسی کے بھی سامنے کھل کر بیان کر دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو جنرل راحیل اور جنرل ضیاء الدین بٹ میں مشترک خیال کی جاتی ہیں۔ جنرل ضیاء الدین بٹ کو نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کی جگہ فوجی سربراہ تعینات کرنے کی کوشش کی تھی۔ بی بی سی کے مطابق بعض فوجی افسروں کے نزدیک لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کی فوجی سربراہ کے طور پر تقرری ثابت کرتی ہے کہ میاں نواز شریف نے اس کلیدی عہدے کے لیے موزوں شخصیت کا چناؤ کرتے وقت پیشہ وارانہ سے زیادہ خاندانی اور ذاتی پس منظر کو اہمیت دی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کی شخصیت سے واقف افسر انہیں کسی طور بھی نااہل فوجی افسر کہنے کو تیار نہیں لیکن ان میں سے بعض سمجھتے ہیں کہ سینیارٹی اور قابلیت دونوں لحاظ سے جنرل راحیل سے بہتر افسروں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ فوجی روایات اور قواعد کی رو سے وزیراعظم پاکستان کسی بھی لیفٹیننٹ جنرل کو بری فوج کے سربراہ کے طور پر تعینات کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ان پر سینئر ترین یا ریٹائر ہونے والے فوجی سربراہ کے مشورے پر عمل کرنے کی پابندی نہیں ہے۔ پاکستانی فوج کے سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کو نظر انداز کرنا اسی لئے ممکن ہوا۔ رائٹر کے مطابق جنرل راحیل شریف کو ایک معتدل آرمی چیف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ اندرون ملک عسکریت پسندی کو بھی روایتی حریف بھارت سے سٹریٹجک لڑائی کی طرح اہم قرار دیتے ہیں۔ انکے ماتحت کام کرنے والے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے رائٹر کو بتایا کہ راحیل شریف نے فوج کو اس بات پر قائل کرنے میں بڑا کردار ادا کیا کہ تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان کے اندر موجو د عسکریت پسند بھی بھارت کی طرح کا بڑا خطرہ ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف معتدل مزاج شخصیت کے مالک ہیں، دہشت گردی کو بھارت کے ساتھ تنازعات جتنا بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے طالبان کے خلاف رائے عامہ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔  امریکی، برطانوی سمیت پورے عالمی میڈیا نے نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تقرری کی خبر کو نمایاں کوریج دی۔ نئے آرمی چیف کو متحمل مزاج فوجی افسر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خطے کی صورتحال اور طالبان سے جاری لڑائی کے تناظر میں ان کی تقرری انتہائی اہم ہے۔ نیویارک ٹائمز  نے  نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تقرری کی خبر کو نمایاں کوریج دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا آرمی چیف طاقتور شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ جنرل راحیل شریف پروفیشنل فوجی افسر ہیں اور وہ تحمل مزاج ہیں۔ توقع ہے کہ ان کی تقرری سے خطے میں امن کی فضاء قائم کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ بھارتی اخبار دی ہندو نے بھی راحیل شریف کی تقرری کو بڑی خبر قرار دیا۔ بی بی سی اور  معروف برطانوی اخبارات کے مطابق طالبان سے لڑائی کے اہم مرحلے اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے تناظر میں جنرل راحیل شریف کی تقرری اہم ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کیلئے یہ تقرری حساس معاملہ تھا کیونکہ 12 اکتوبر 1999ء کو ان کے لگائے گئے آرمی چیف پرویز نے اقتدار سے باہر نکال دیا تھا۔

ای پیپر-دی نیشن