سانحہ راولپنڈی! حکومت کی ناکامی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت!
اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ موجودہ حکومت عوام کے ساتھ جن ”وعدوں“ کی بنا پر برسرِ اقتدار آئی تھی 6 ماہ گزرنے کے باوجود ان میں سے ایک بھی ابھی تک پورا نہیں کر سکی نہ ہی سوائے ”باتوں“ کے دور دور تک عوام کی فلاح و ریلیف کے لئے کوئی آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، بدامنی، لاقانونیت، بے روزگاری، مہنگائی، دہشت گردی جیسے مسائل نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ حکومت کا کہیں بھی ”موجودگی“ کا احساس بھی نہیں ہو رہا۔ ادھر وزیراعظم صاحب جو کہ وزیراعظم بننے کے بعد وزیراعظم ہاﺅس نہیں بلکہ عوام میں بیٹھنے کے ”دعویدار“ تھے انہیں شاید اب وزیراعظم ہاﺅس بیٹھنا بھی گوارا نہیں۔ مسلسل غیر ملکی دوروں پر رہتے ہیں۔ لگتا ہے وہ امسال غیر ملکی دوروں کی ”سنچری“ مکمل کرنے کے خواہاں ہیں۔ عوام کے مسائل جان لیوا ہیں۔ کوئی پرسان حال ہی نہیں وزیراعظم صاحب اپنی اہلیہ اور ”مخصوص“ ٹیم کے ساتھ عوامی مسائل سے ”بے خبر“ دوروں میں محو ہیں۔ ان کے ان دوروں کا عوام کو کیا ایک فیصد بھی ریلیف ملا ہے؟ دیگر مسائل ایک طرف فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ نے بھی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یوم عاشور راولپنڈی میں دو گروپوں میں تصادم نے کئی گھرانوں کو اجاڑ دیا ہے۔ پکی ہوئی دیگ میں سے صرف ایک دانہ ہی چیک کیا جاتا ہے۔ ابھی چند روز پہلے سکندر نامی دہشت گرد نے 6 گھنٹے تک اسلام آباد پولیس کو جب ناکوں چنے چبوائے تو نہ صرف پولیس کی ”اہلیت“ اور ”کارکردگی“ کا بھانڈا پھوٹ گیا تھا بلکہ وزیر داخلہ اور وزیراعظم نے خود پولیس کی نااہلی کا اعتراف بھی کیا تھا۔ اگر پولیس کی ایسی ہی کارکردگی ہے تو اربوں روپے کیوں عوام کے برباد کئے جا رہے ہیں؟ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ کوئی بھی مسلمان صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہار کی عظمت و مرتبے کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔ پھر یہ لڑائی جھگڑے کس لئے ہیں۔ رب کائنات نے انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے وہ اپنی صفات اپنے نائب میں دیکھنے کا خواہاں ہے بقول اقبالؒ ....
قہاری و غفاری و قدوسی جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
جس طرح اللہ کریم تمام جہانوں کا رب ہے اسی طرح خاتم النبین بھی تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت تمام جہانوں کے لئے بلاتفریق، دین و مذہب، رنگ و نسل سب کے لئے ہے۔ سورج کی روشنی، بارش کا پانی سب کو یکساں سیراب کرتا ہے۔ ایک ہی خدا ایک ہی دین کے ماننے والے کیا امن و آشتی سے نہیں رہ سکتے؟ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنا اور دوسروں کے عقائد کا ادب و احترام کرنا سب پر فرض ہے۔ صبر و تحمل برداشت جو کہ ہمارے آقا کی حیات مبارکہ کا بنیادی جوہر ہے وہ آج صرف پاکستان میں لینے والے مسلمانوں میں مفقود کیوں ہے؟ آپ کی حیات طیبہ ہم سب کیلئے نمونہ ہے تو پھر کیا ہم دوسروں کے عقائد کو برا بھلا کہہ کر دوسروں کی تضحیک کرکے پھر بھی آپ کی حیات مبارکہ و سیرت پر عمل کے ”دعویدار“ کہلانے میں حق بجانب ہیں۔ کون ہے جو ہمیں لڑا رہا ہے؟ دہشت گردی کی آڑ میں ہم پہلے ہی پچاس ہزار شہریوں اور ہزاروں فوجیوں کے لاشے اٹھا چکے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی نادیدہ قوتیں ہمیں آپ میں دست و گریبان کرکے اپنے ”مذموم“ مقاصد کی تکمیل چاہتی ہیں۔ ہمیں خود ان عناصر کی نشاندہی کرنا ہو گی۔ حکومت کا کیا رونا وہ تو بس نام کی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک طرف ملکی حالات اس قدر بدحال ہیں۔ دوسری طرف وزیر خزانہ اسحاق ڈار حکومت کے لئے دوسری مدت کے خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں ”کہ 40 ہزار میگاواٹ بجلی تیار کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ منصوبے مکمل کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کو دوسری مدت بھی چاہئے ہم ملک کو مستقل طور پر اندھیروں سے نجات دینا چاہتے ہیں“ ایسے ہی ”سہانے“ اور ”دلکش“ خواب دکھا کر پہلے بھی مسلم لیگ (ن) نے اقتدار حاصل کیا اور ”کارکردگی“ سب کے سامنے ہے اور چند ماہ میں ہی اپنے سارے وعدوں کو پس پشت ڈال کر حکومت کہیں بھی نظر نہیں آئی اور یہ وہی ”وزیر مال“ ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ دو میں سے ایک کام ہمیں کرنا ہو گا یا تو ٹیکس لگانا ہوں گے یا آئی ایم ایف کے پاس جانا ہو گا۔ موصوف آئی ایم ایف سے بھی کھربوں کا معاہدہ کر چکے ہیں اور انسان کے سانس لینے پر بس ٹیکس لگانا باقی ہے۔ وہ بھی لگانے کے چکر میں ہوں گے۔ آلو 100 روپے کلو سبزی بھی غریب کے منہ سے چھین لی گئی ہے۔ اسحاق ڈار صاحب کو ملکی حالات عوام کے مسائل کو دیکھ کر ابھی تک اندازہ ہی نہیں ہو سکا وہ مزید ”اقتدار“ کے خواب دیکھنے میں محو ہیں۔