ستارۂ صبح…مولانا ظفر علی خاں
’’مجھے پنجاب میں دو ایک ظفر علی خاں جیسے بہادر آدمی دے دو‘ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پھر مسلمانوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔‘‘ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے یہ الفاظ آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی رکن مولانا ظفر علی خان کے بارے میں تب بہ تکرار کہے تھے جب مسلم لیگ کی تنظیم نو کا عمل جاری تھا۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے کہا تھا ’’ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفی کمال کا بانکپن ہے۔ اُنہوں نے مسلمانان پنجاب کو نیند سے جھنجھوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔‘‘ بانیانِ پاکستان کے یہ الفاظ مولانا ظفر علی خاں کی عظمت و جرأت پر دلالت کرتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام ’’آل پاکستان اُردو کانفرنس‘‘ میں 26مارچ 1948ء کو ’’عہد حاضر اور اُردو‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا جس کے دوران اپنی حیات مستعار کے طول و عرض کا نقشہ کچھ یوں پیش کیا:-
’’ہمارا قافلہ منزل مقصود پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے بعد تمنائے راہ پیمائی تو ہے‘ لیکن قوتِ راہ پیمائی نہیں رہی۔ کام کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن ہاتھ جواب دے چکے ہیں۔ دل میں جذبات تو ہیں لیکن ان کے لیے عمل و حقیقت کا جامہ نہیں ملتا۔ اب راستے میں بیٹھ کر چلنے والوں کی برق رفتاری کا تماشا دیکھنے کے قابل رہ گئے ہیں۔ تماشا بھی اُن لوگوں کا دیکھتے ہیں جو ہمیں عہد ماضی کی یادگار سمجھ کر تماشا سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو تماشائی۔ اس میں شک نہیں کہ بوڑھے عصر حاضر کے معمار ہیں لیکن جس طرح عمارت مکمل ہوجانے کے بعد معمار کو نکال دیاجاتا ہے‘ اسی طرح اگر عصر حاضر پکارنے لگے کہ ’’اب تمہاری کوئی ضرورت نہیں‘‘ تو ہم کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔ دنیا چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش کرتی ہے۔ ڈوبتے ہوئے آفتاب کو کون پوچھتا ہے اور ہم تو ڈوبتے ہوئے ستارے کی طرح دنیا پر نظر ڈال رہے ہیں۔ پھر سورج کے مقابلے میں ہمیں کب جگہ ملے گی۔ با ایں ہمہ کبھی ہم بھی رزم گاہِ ہستی میں مصروف پیکار تھے۔ ہم نے بھی اس خاموش دنیا میں ہنگامے کی روح پھونکی تھی۔ عہد حاضر کے نقش و نگار میں کچھ ہمارے قلم کا حصہ بھی ہے۔ اس گلستان کے چند پھولوں نے ہمارے خون سے بھی سرخی حاصل کی ہوگی۔ اس صحرا کی ہنگامہ آرائی میں ہمارا جنون بھی کار فرما رہا ہے۔ اس لیے اگر ہم کچھ کہیں تو عزیزان ملت! پرانے زمانے کی راگنی نہ سمجھیں۔ ٹوٹے ہوئے ساز کا اُلجھاہوا نغمہ خیال نہ کریں اور پھر یہ کہہ کر کانوں میں انگلیاں نہ ٹھونس لیں کہ ؎
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں‘‘
تحریک پاکستان یہ کامرکزی رہنما‘ بابائے صحافت اور قادر الکلام شاعر اور سب سے بڑھ کر سچا عاشق رسولﷺ 27نومبر 1956ء کو راہیٔ ملک عدم ہوا۔ ان کی 57ویںبرسی کے موقع پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے خصوصی نشست کا انعقاد کیا جس کی صدارت کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن‘ آبروئے صحافت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا کہ آج ہم اس بطلِ جلیل کو یاد کررہے ہیں جسے دنیا مولانا ظفر علی خان کے نام سے جانتی ہے۔ وہ روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کے مدیر تھے اور اپنی اُردو کو حیدر آباددکن سے پالش کرکے آئے تھے۔ اُن جیسا مدیر نہ دوبارہ پیدا ہوا‘ نہ کبھی ہوگا۔ اُنہوں نے مسجد شہید گنج کے مسئلے پر بڑا سرگرم کردار ادا کیا لیکن افسوس کہ آج بھی وہ مقفل ہے اور معلوم نہیں کہ اس وقت وہ مسجد ہے یا گوردوارہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری قوت ایمانی کس قدر جاندار ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مسجد شہید گنج کو فوراً کھولا جائے۔ محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے تقریب میں موجود ’’مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین خالد محمود سے کہا کہ وہ نہ صرف اس کا تالہ کھلوائیں بلکہ وہاں امامت کے فرائض بھی ادا کریں۔ خالد محمود نے اس کام کی حامی بھرلی بشرطیکہ مسجد کی چابی انہیں عنایت کردی جائے۔ محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان ایک بہترین صحافی تھے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ایک صحافی کو جو کام ایمانداری سے کرنا چاہیے‘ اس پر عمل کروں۔
یہی وجہ ہے کہ اب تک میرے دل کے تین بائی پاس ہوچکے ہیں اور میرے بڑے بھائی محترم حمید نظامی نے بھی دل کے عارضے کے ہاتھوں ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ سچ بات یہ ہے کہ سچی صحافت کوئی آسان کام نہیں مگر ہر دور میں مولانا ظفر علی خان جیسے صحافی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت نے ہمیشہ سچ بات لکھی ہے چاہے اس کی پاداش میں اسے کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ نشست میں روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر انچیف مجیب الرحمن شامی‘ مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کے چیئرمین خالد محمود‘ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (CPNE) کے صدر اور روزنامہ جرأت کے ایڈیٹر انچیف جمیل اطہر قاضی‘ روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر پروفیسر عطاء الرحمن‘ علامہ احمد علی قصوری‘ پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری‘ محمد آصف بھلی‘ پروفیسر ڈاکٹر پروین خان اور راجہ اسد علی خان نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید نے انجام دیے۔