• news

طالبان سے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہوں گا‘ نئے منصوبے لگائیں‘ ذرائع آمدن نہیں پوچھیں گے: نوازشریف‘ یکم جنوری سے ٹیکس ریلیف پیکج کا اعلان

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) وزیراعظم محمد نوازشریف نے تاجروں کے لئے متعدد مراعات اور ٹیکس ریلیف کے جامع پیکج کا اعلان کیا ہے۔ یکم جنوری 2014ء سے نئے منصوبے لگانے والے سرمایہ کاروں سے  ان کے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے۔ دہشت گردی، منشیات اور کالے دھن کو ان منصوبوں کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکے گا کان کنی اور توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے سرمایہ کار کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ وزیراعظم نے بجٹ میں بنک اکائونٹس تک رسائی کا سرکاری حکم واپس لینے کا اعلان بھی کیا۔ وزیراعظم نے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے چار سو ٹیکس گزاروں کو مراعات سے متعلق خصوصی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے بزنس اور زراعت سے متعلق وزیراعظم کی سطح پر مشاورتی کونسلوں کے قیام، ملک بھر کے تمام ایوان صنعت و تجارت کو خصوصی معاشی زونز کے قیام کیلئے سہولیات کا اعلان کیا ہے اس حوالے سے زمینیں لینڈ ایکوایشن کے تحت تجارتی نرخوں پر صوبائی حکومتیں فراہم کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کی کوششیں کرتا رہوں گا۔ بار بار آئین اور نظام ٹوٹتا رہا ترقی کیسے ہو گی۔ جامع پیکج کے تحت نئے منصوبے لگانے والوں کیلئے مراعات ہوں گی۔ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے 400 افراد کو اعترافی کارڈز دئیے جائیں گے۔ ہر کیٹگری میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے 10 افراد کو ایکسیلنس ایوارڈز اور ایوان صنعت و تجارت اور رجسٹرڈ ایسوسی ایشنز کو خصوصی اقتصادی زون قائم کرنیکی اجازت دی جائے گی، صوبائی حکومتیں بھی سرمایہ کاروں سے مکمل تعاون کی پابند ہوں گے، وزیراعظم نے کہا کہ مجرموں کو سزائیں ہوتیں تو آج کراچی میں امن ہوتا۔ صورت حال بہتر ہورہی ہے لیکن مکمل امن میں وقت لگے گا۔ سرمایہ کار سب سے پہلے کسی ملک میں عدل اور انصاف کا نظام دیکھتے ہیں۔ آمریت اور بربریت والے ملکوں میں سرمایہ کار تو دور کی بات سیاح بھی نہیں آتے۔ پاکستان اور بھارت باہمی اتفاق ہی سے ترقی کر سکتے ہیں۔ امن کیلئے تدبر اور فراست کی ضرورت ہے، مار دھاڑ کا وقت گزر گیا۔ دوہری شہریت والوں کو ملکی ترقی میں شامل کرنے کیلئے قانون سازی کرینگے۔ عالمی رہنماؤں سے امداد کی بجائے صرف تجارت پر بات کرتے ہیں۔ ہماری پالیسی دوسروں سے مانگنے کی نہیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی ہے۔ فرقہ واریت پھیلانے والے پاکستان اور اسلام کے دشمن ہیں۔ فرقہ واریت پھیلانے والوں کے خلاف صوبائی حکومتیں سخت کارروائی کریں۔ لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال فوری روکنا ہو گا۔ ملک بھر سے آئے ہوئے تاجروں اور صنعت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے وزیراعظم بزنس ایڈوائزری کونسل کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کونسل میں تاجروں اور وزرا سمیت اہم سرکاری عہدے داروں کی نمائندگی ہو گی۔ میں بزنس ایڈوائزری کونسل کے ہر 3 ماہ بعد اجلاس کی صدارت کرونگا۔ اس کے علاوہ زراعت کی ترقی کیلئے زرعی مشاورتی کونسل بھی قائم ہو گی۔ میں کافی عرصہ سے اپنی تاجر برادری سے ملنے کا خواہش مند تھا۔ مجھے آج آپ سب کو یہاں دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ کوئی یاد رکھے نہ رکھے میں دوستوں کو یاد رکھتا ہوں، تاجر برادری میرے لئے بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ زراعت کی ترقی کیلئے زرعی مشاورتی کونسل بھی قائم ہو گی۔ یہ مشاورتی کونسلز ایک ہی جگہ پر ماہرین کو اکٹھا کرنے کا کام کریں گی اور حکومت کی پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کریں گی۔ حکومت کی بھاگ دوڑ میں تاجر برادری کا اہم کردار ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ 70ء کی دہائی میں صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے سے معیشت کی کمر ٹوٹ گئی جس کا آج تک ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ 32 صنعتوں کے بعد بینک اور انشورنس انڈسٹری کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ صنعتوں کو قومی تحویل میں نہ لیا جاتا تو آج ہم جنوبی کوریا سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے۔ خوش قسمتی سے اللہ تعالی نے پاکستان کو تمام وسائل عطا کیئے ہیں ۔ کمی صرف ان سے استفادہ کی ہے۔ 90ء کی دہائی میں ہماری صنعتی پالیسی کی پورے خطے میں پذیرائی ہوئی۔ ہمارا ملک بہت صلاحیتوں کا مالک ہے، دفاع کے شعبے میں کامیابیاں حاصل کیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آمریت کی وجہ سے نظام بار بار ٹوٹا، اجتماعی دانش کا فقدان رہا۔ آمریت کی وجہ سے گھر اور کاروبار ترقی نہیں کر سکتا، ملک کیسے کرے گا۔ یہ ملک میں کیا گھر میں بھی قبول نہیں۔ جمہوریت کے تسلسل سے دنیا نے ترقی کی ہے۔ اچھا کام کرنیوالوں کو جلا وطن کرنے سے ملک کی خدمت نہیں ہوتی۔ سرمایہ کار سب سے پہلے کسی ملک میں عدل اور انصاف کا نظام دیکھتے ہیں۔ آمریت والے ملکوں میں سرمایہ کار تو دور کی بات سیاح بھی نہیں آتے۔ مجرموں کو پکڑنے کیلئے قانون سازی 10 سال پہلے ہو جانی چاہئے تھی۔ مجرموں کو سزائیں ہوتیں تو آج کراچی میں امن ہوتا۔ ہماری حکومت نے کراچی میں امن قائم کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے اور انشاء اللہ جلد کراچی دنیا کا پر امن ترین شہر بن جائے گا۔ کراچی میں صورت حال بہتر ہو رہی ہے لیکن مکمل امن میں وقت لگے گا۔ فرقہ واریت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور فرقہ واریت پھیلانے والے پاکستان اور اسلام کے دشمن ہیں۔ فرقہ واریت پھیلانے والوں کے خلاف صوبائی حکومتیں سخت کارروائی کریں۔ لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال فوری روکنا ہو گا۔ ہماری تمام تر توجہ ملک کی معیشت کو بہتر بنانے پر ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے متفقہ پالیسی بنا کر عملدرآمد کریں گے۔ مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی پالیسی پر قائم ہیں۔ دہشت گردی سے بھاری مالی اور جانی نقصان ہوا۔ بھارت اور افغانستان ہمارے ہمسایہ ممالک ہیں، یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا چاہئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب پاکستان کے مفاد میں تمام ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور بھارت باہمی اتفاق ہی سے ترقی کر سکتے ہیں۔ امن کیلئے تدبر اور فراست کی ضرورت ہے، مار دھاڑ کا وقت گزر گیا۔ معیشت کی بحالی، دہشت گردی کے خاتمے پر سیاست نہیں ہو گی۔ دوہری شہریت کے حامل افراد کو قبول نہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ دوہری شہریت والوں کو ملکی ترقی میں شامل کرنے کیلئے قانون سازی کرینگے۔ کاشغر گوادر راہداری سے گلگت بلتستان سے لے کر بلوچستان تک خوشحالی آئے گی۔ جاپان کے وزیراعظم سے نیو یارک میں کراچی سرکلر ریلوے پر بات کی۔ جاپانی وزیراعظم شن زوآبے نے کراچی سرکلر ریلوے کی تعمیر میں جاپانی حکومت کی معاونت کا یقین دلایا۔ صنعت کا پہیہ چلانے کیلئے توانائی بحران ختم کرنا ہو گا۔ دنیا حیران ہے کہ پاکستان ایٹمی ملک ہے لیکن 18 گھنٹے تک بجلی نہیں ہوتی۔ ہم نے اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے حکمت عملی کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستانی مصنوعات کی عالمی منڈی تک رسائی کی ہمیشہ بات کی ہے۔ عالمی رہنماؤں سے امداد کی بجائے صرف تجارت پر بات کرتے ہیں۔ ہماری پالیسی دوسروں سے مانگنے کی بجائے اپنے وسائل سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی ہے۔ پاکستان کا روشن مستقبل شک و شبے سے بالا تر ہے۔ ہم نے پشاور سے لاہور تک موٹروے بنائی لیکن ہمارے بعد اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ ہماری حکومت نے چینی حکومت سے مل کر خنجراب سے گوادر تک جدید شاہراہ اور ریل پٹری بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس شاہراہ سے بننے سے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے جنوبی اور مغربی علاقوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ گوادر بندرگاہ سے چین اور پاکستان کے صنعتی شعبے کو یکساں فائدہ ہو گا۔ سول نیوکلیئر پاور پلانٹ سے 2200 میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی۔ دیامیر بھاشا، داسو اور بونجی منصوبوں سے 15 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی۔ وقتی سوچ کی بجائے آئندہ 25 سال کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ تاجر گڈانی پاور پارک اور پن بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں ۔ میرادل اور میری جان ملکی ترقی سے جڑے ہیں۔ مشکل حالات میں وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری قبول کی۔ معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے سخت اور مشکل فیصلے کرنا ہونگے۔ سرمایہ کاری کے بغیر معاشی ترقی کا حصول ناممکن ہے۔ سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنے کیلئے پر عزم ہیں۔ حکومت معاشی اصلاحات کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ ہماری حکومت نے نئی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ گرین فیلڈ انڈسٹریل پراجیکٹس یعنی نئے منصوبے شروع کرنے والے افرادکو مراعات دی جائیں۔ بشرطیکہ منصوبے یکم جنوری 2014ء یا اس کے بعد قائم کئے گئے ہوں۔ ان میں کم سے کم سرمایہ کاری 25 ملین کی گئی ہو۔ کم سے کم 5 افراد کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کریں۔ سرمایہ کاری 25 ملین سے زیادہ کی ہو تو ہر 5 ملین کی اضافی سرمایہ کاری کی شرح سے ایک اضافی فرد کو روزگار مہیا ہوا ہو۔ اس کے علاوہ اگر کیپٹو پاور پلانٹس جو کہ نئی سرمایہ کاری کا حصہ ہوں ان کو بھی یہی مراعات دی جائیںگی۔ یہ سہولت کم لاگت رہائشی منصوبوں اور کارپوریٹ سیکٹر میں جانوروں کی افزائش نسل کے منصوبوں کو بھی میسر ہو گی۔ سندھ میں تھرکول اور بلوچستان اور خیبر پی کے میں مائننگ کے منصوبوں کو بھی یہ سہولت حاصل ہوگی تاہم یہ رعایت اسلحہ، گولہ بارود، کھاد، چینی، سگریٹ، سوڈاواٹر، سیمنٹ، ٹیکسٹائل سپننگ یونٹس، آٹے کی ملیں اور گھی اور تیل کے شعبوں میں لگائے جانے والے منصوبوں کو حاصل نہیں ہو گی۔ اِن ترغیبات کا اطلاق اُس رقم پر نہیں ہو گا جو نارکوٹیکس مواد ایکٹ 1997ئ، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 1997ء کے تحت جرائم سے جمع کی گئی ہو۔ ٹیکس دہندگان کی حوصلہ افزائی کے لئے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے ایسے 400 افراد کو اعترافی کارڈز دیئے جائیں گے۔ جن میں کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسر، ایسو سی ایشن آف پر سنزکے بڑے شیئر ہولڈر، تنخواہ دار ،غیر تنخواہ دار افراد شامل ہیں۔ ان کارڈز کے ذریعے، ٹیکس دینے والے افراد کو ایئر پورٹ پر وی آئی پی لائونج کے استعمال، فاسٹ ٹریک امیگریشن کلیئرنس ، اعزازی پاسپورٹ اور بیگج الائونس میں 500 سے 5000 ڈالرز تک اضافے کی سہولیات میسر ہونگی۔یہ تمام سہولیات مارچ 2014ء سے نافذ ہونگی۔ اس کے علاوہ ہر کیٹگری میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے 10 افراد کو ایکسیلنس ایوارڈز دئیے جائیں گے ۔ سالانہ ایکسیلنس ایوارڈز وصول کرنے والوں کو وزیراعظم کے ساتھ عشائیہ اور 23 مارچ اور 14 اگست جیسی ایام کی تقریبات میں مدعو کیا جائے گا۔ موجودہ قانون کے تحت کسی بھی یونیورسل خودتشخیصی سکیم کے تحت فائل کیے گئے گوشواروں کا تفصیلی آڈٹ کیا جاسکتا ہے۔ ٹیکس ادائیگی کو فروغ دینے کے لئے ہماری حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمام ٹیکس دہندگان کو یہ سہولت دی جائے کہ اگر اُنہوں نے پچھلے سال سے 25 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کیا ہو تو وہ تفصیلی آڈٹ سے مستثنیٰ ہوں گے۔ اس کے علاوہ ، وہ ٹیکس دہندگان جو اپنا ٹیکس گوشوارہ جمع کرا چکے ہیں، اِن کو بھی اضافی 15 یوم نظر ثانی شدہ ریٹرن داخل کرنے کے لیے دیے جائیں گے۔ نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این )کے حامل افراد کو ٹیکس ادا کرنے کی طرف رغبت دلانے کے لئے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے افراد، جرمانوں ،نادہندگی سرچارج اور آڈٹ سے مستثنیٰ ہوں گے ، بشرطیکہ گذشتہ 5 سال کے انکم ٹیکس گوشوارے   جمع کرا دیے جائیں یا ان 5 سال کے دوران عدم موجود ریٹرن جمع کرا دئیے جائیں، کم سے کم 20,000 روپے سالانہ ٹیکس ادا کیا جائے۔ ہماری حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ وہ افراد کہ جن کے پاس این ٹی این موجود نہیں اور وہ پہلی دفعہ ٹیکس ادا کر رہے ہوں، اُن کو بھی نادہندگی سرچارج اور جرمانوں سمیت آڈٹ سے استثنیٰ دیا جائے ۔ ان افراد کے لئے آئندہ آنے والے اُتنے ہی آئندہ سال کے لئے استثنیٰ دیا جائے گا کہ جتنے گذشتہ سال کے ٹیکس ریٹرن اُنہوں نے فائل کیے ہوں گے بشرطیکہ کم سے کم آئندہ سالانہ ٹیکس 25000/- روپے ادا کیا جارہا ہو۔ انفرادی ٹیکس دہندگان کے لئے ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ 30 نومبر سے بڑھا کر 15 دسمبر کی جارہی ہے۔ کاروبار میں سہولت پیدا کرنے کے لیے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے لائسنسنگ، رجسٹریشن  اور انسپکشن کے قوانین کو یکجا کر کے ہم انہیں مزید آسان بنائیں گے۔ صوبائی حکومتوں کو رغبت دلائی جائے گی کہ وہ سپیشل اکنامک زونز کے تحت دی جانے والی سہولیات سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے پراجیکٹس، وفاقی حکومت کو اپنی سفارشات کے ساتھ بھجوائیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صوبائی حکومتیں معاہدوں پر عملدرآمد کرانے کے لیے کمرشل کورٹس قائم کریں۔یہ پیکج جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ ابتدا ہے۔ اُس عمل کی ،جس کے ذریعے میری حکومت کی یہ خواہش ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کے عمل کو فروغ دیا جائے، کاروباری طبقے کو جن مشکلات کا سامناہے، انہیں دورکیا جائے اور وہ لوگ جو ملک کی معیشت کے فروغ میں امتیازی حیثیت کے حامل ہیں، اُن کی خدمات کا اعتراف کیا جائے ۔یہ ایک سفر کا آغاز ہے، ہمیں ابھی بہت فاصلہ طے کرنا ہے۔ میرا اور آپ کا رابطہ ہمیشہ رہا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی رہے گا۔ میں چاہوں گا کہ آپ کے مشوروں سے ان اصلاحات کو قابلِ عمل بنایا جائے اور اُن پر عمل درآمد کیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ آپ ملک و قوم کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کریں گے۔آپ کے تعاون سے ملک میں ایک نئے معاشی دور کا آغاز ہو گا جس سے نہ صرف لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ پاکستان کی معیشت اور سماج کو مضبوط بنیادیں بھی فراہم ہوں گی۔ ایوان صنعت و تجارت اور رجسٹرڈ ایسوسی ایشنز کو خصوصی اقتصادی زون قائم کرنیکی اجازت ہو گی۔ حکومت سرمایہ کاری کے فروغ اور کاروباری طبقے کو ہر ممکن سہولیات فراہم کریگی۔ تمام پالیسیاں تاجروں کی مشاورت سے طے کی جائیں گی۔ کسی بھی شعبے میں اصلاحات پیکج تجاویز کا خیرمقدم کریں گے۔ ٹیکس دہندگان اور حکام کے درمیان معاملات طے ہونیکا سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ وزیراعظم نے اسے گرین فیلڈز و توسیع منصوبے کے پیکیج کا نام دیا، وزیراعظم نے ٹیکس گزاروں کیلئے سہولیات کا اعلان کیا اور کہا کہ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے چار سو ٹیکس گزاروں کو خصوصی مراعاتی کارڈ دیئے جائیں گے جنہیں ہوائی اڈوں کے وی آئی پی لائونچ تیز رفتار امیگریشن اضافی پاسپورٹس اور باہر سے لائے جانے والے سامان کے حوالے سے موجود پانچ سو ڈالر کی سہولت کو پانچ ہزار ڈالر تک بڑھا دیا جائیگا سب سے زیادہ ٹاپ ٹین ٹیکس گزاروں کو کارکردگی ایوارڈز دیئے جائیں، انہیں میں خود عشائیے میں مدعو کرونگا۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں پچیس فیصد زیادہ ٹیکس دینے والوں کا تفصیلی آڈٹ نہیں ہو گا اسی طرح پہلی بار ٹیکس دینے والے جرمانوں اور ڈیفالٹ سرچارجز سے مستثنیٰ بھی ہونگے۔ رضاکارانہ بنیادوں پر ٹیکس کلچر کا فروغ چاہتے ہیں۔ دریں اثناء وزیراعظم نوازشریف سے شین ہوئی کی قیادت میں چینی وفد سے ملاقات کی۔ 
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم نے تاجروں کے لئے ٹیکس ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ لگانے پر بھی پیکج لاگو ہو گا۔ چھوٹے گھروں کی تعمیر، کان کنی، تھرکول، بلوچستان، خیبر پی کے دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں پر لاگو ہو گا۔ ٹیکس رعایتی پیکج کا اطلاق سگریٹ، اسلحہ، سیمنٹ، شوگر ملز، ٹیکسٹائل، فلور ملز اور گھی کے کارخانوں پر نہیں ہو گا۔ 

ای پیپر-دی نیشن