محکمہ انٹی کرپشن پنجاب کو نیب کی طرز پر ملزمان سے پلی بارگین کرنے کا اختیار دینے کا فیصلہ
لاہور (معین اظہر سے) نیب کی طرز پر پنجاب اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کو بھی کرپشن میں ملزمان سے پلی بارگین کرنے، جائیداد ضبط کرنے، بنکوں سرکاری اداروں کے ریکارڈ تک رسائی کا اختیار دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ کرپشن پر کم سے کم 6 ماہ اور زیادہ سے زیادہ 7 سال کی سزا دی جا سکے گی۔ اینٹی کرپشن افسروں کو کسی ملزم کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی اجازت ہو گی۔ پراسیکیویشن کے دوران کیس مزید تفتیش کے لئے واپس لے سکیں گے۔ خصوصی عدالتیں کیس کا 30 روز میں فیصلہ کرنے کی پابند ہونگی۔ اینٹی کرپشن کی خصوصی عدالتوں کی سزاؤں پر ہائیکورٹ میں سپیشل بنچ بھی 30 روز میں اپیل کا فیصلہ کریں گے۔ اینٹی کرپشن افسروں کے خلاف کوئی پراسیکویشن نہ ہونے کی گارنٹی سمیت متعدد تجاویز تیار کر لی گئی ہیں، یہ تجاویز اعلیٰ سطحی کمیٹی کی طرف سے صوبے میں کرپشن کے خاتمے کے لئے تیار کی گئی ہیں جو چیف سیکرٹری پنجاب کو بھجوا دی گئیں جن کو جلد ہی نئے انٹی کرپشن قانون کے لئے صوبائی کابینہ میں منظوری کے لئے جلد پیش کر دیا جائیگا۔ اس سلسلے میں کمیٹی نے جو اپنی سفارشات دی ہیں ان کے مطابق اینٹی کرپشن قانون میں اس وقت کم سے کم سزا کا تصور موجود نہیں جس کی وجہ سے متعدد کیسوں میں بعض اہلکار چھوٹ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملزم کو اپیل میں اس کا فائدہ مل جاتا ہے جس پر تجویز کیا گیا ہے کہ نئے اینٹی کرپشن ایکٹ میں کرپشن پر کم سے کم سزا چھ ماہ کر دی جائے اور زیادہ سے زیادہ 7 سال سزا کر دی جائے۔ اینٹی کرپشن کے افسروں کو کرپشن سے خریدی گئی جائیداد، رقم جو کسی بھی مالیاتی ادارے میں ہو گی اس کو فریز کرنے کا اختیار بھی دیا جائے گا تاہم انویسٹی گیشن افسران اپنے ڈائریکٹر کے اجازت سے فریز کریں گے۔ اسی طرح ڈائریکٹر کو کسی پراپرٹی یا رقم کو فریز کرنے کے خلاف اپیل بھی کی جا سکے گی جس میں فائنل اپیل ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل اور ڈی جی کے پاس ہو سکے گی۔ کیس ثابت ہونے پر پراپرٹی، بنک رقوم کو ضبط کر کے قبضہ کرنے کا اختیار اور کیس کے دوران کسی پراپرٹی بنک اکاؤنٹ کو ضبط کرنے کا نوٹس جاری کرنے کا اختیار بھی اینٹی کرپشن افسروں کے پاس ہو گا۔ اسی طرح ضبط کی گئی رقم اور جائیدار یا دیگر چیزوں کا قبضہ لینے کا اختیار بھی اینٹی کرپشن کے پاس ہو گا۔کیس ثابت نہ ہونے پر ضبط کی گئی رقم، پراپرٹی یا دیگر چیزیں واپس کرنے کا اختیار بھی اینٹی کرپشن کے افسروں کے پاس ہو گا۔ اینٹی کرپشن سے کسی کو سزا ہوئی تو وہ پبلک آفس یا الیکشن لڑنے سے نااہل ہو جائے گا۔کرپشن کے کیسوں کا سپیڈی ٹرائل کیا جائے گا جس میں عدالت 30 روز میں کیس کا فیصلہ پابند ہو گی۔ اینٹی کرپشن کسی بھی فرد کو بلا کر اس سے اطلاع یا معلومات لے سکیں گے اسی طرح کسی بنک یا فنانشل ادارے سے ریکارڈ تک ان کو رسائی ہو گی۔ اینٹی کرپشن کو شک کی بنیاد پر کسی بھی فرد یا افسر کو کیس کی کسی بھی مرحلے پر گرفتار کرنے کا اختیار ہو گا اگر کوئی رقم خود واپس کرنا چاہے تو ڈی جی اینٹی کرپشن کے پاس پلی بارگین کرنے کا اختیار ہو گا۔ انویسٹی گیشن افسروں کے پاس ڈی جی کو پلی بارگین کا کیس بھجوانے کا اختیار ہو گا۔ کسی محکمے سے بھی مدد حاصل کر سکیں گے، کسی کیس میں ایک سے زیادہ افراد کے ملوث ہونے پر ایک ملزم کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا اختیا ر بھی اینٹی کرپشن کے پاس ہو گا۔ افسروں کے پاس وارنٹ جاری کرنے کا اختیار بھی ہو گا۔ کوئی بھی متاثرہ شخص یا ادارہ اینٹی کرپشن افسروں کے خلاف کسی جرمانے، کسی کیس کو شروع نہیں کر سکے گا ان کو ایکٹ کے تحت تحفظ حاصل ہو گا۔