کچھ بھی کر لیں لاپتہ افراد دینا ہونگے‘ بریگیڈئر سمیت 19 افسر اور اہلکار کل تک ڈی آئی جی سی آئی سی کوئٹہ کے سامنے پیش ہوں : سپریم کورٹ
کچھ بھی کر لیں لاپتہ افراد دینا ہونگے‘ بریگیڈئر سمیت 19 افسر اور اہلکار کل تک ڈی آئی جی سی آئی سی کوئٹہ کے سامنے پیش ہوں : سپریم کورٹ
کراچی (وقائع نگار + نیٹ نیوز + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے بلوچستان سے لاپتہ افراد کی گمشدگی کے مقدمے میں نامزد پاک فوج کے حاضر سروس بریگیڈئر سمیت 19 افسروں اور اہلکاروں کو ڈی آئی جی سی آئی ڈی کوئٹہ کے روبرو اتوار تک پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے یہ حکم لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران دیا۔ ڈی آئی جی سی آئی ڈی امتیاز شاہ نے عدالت کو بتایا کہ بریگیڈئر اورنگزیب، کرنل نعیم، میجر طاہر، صوبیدار مومن اور اللہ بخش سمیت 19 افسر اور اہلکار گمشدگی کے مقدمات میں نامزد ہیں۔ دو اہلکاروں کی شناخت نہیں ہوسکی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی سے سوال کیا کہ ان لوگوں کو آج عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا گیا۔ ’اب آپ بتائیں کہ کس کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے۔ یاد رہے عدالت نے حکم جاری کیا تھا کہ آئی جی ایف سی اور لاپتہ افراد کے مقدمات میں نامزد افسر جمعہ کو عدالت میں پیش ہوں، لیکن وہ آج غیر حاضر رہے۔ چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا انہوں نے سیکرٹری دفاع کو عدالت کے احکامات سے آگاہ کیا گیا تھا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیکرٹری طیارے میں تھے اس لیے انھیں اطلاع نہیں دے سکے لیکن انھوں نے فیکس کے ذریعے سیکرٹری کو آگاہ کر دیا تھا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل کے مطابق ان کے پاس فیکس کی سہولت نہیں تھی انہوں نے رینجرز کے دفتر سے فیکس بھیجا جس کی وجہ سے کچھ دیر ہوئی۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے سوال کیا کہ ’کیا یہ افسر اتنے بڑے ہیں کہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے؟‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’ریاست کیا کر رہی ہے۔ ان افسروں اور اہلکاروں کے خلاف ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کیا سمجھتے ہیں کہ چیف گیا تو معاملہ ختم ہوجائے گا‘، انہوں نے بینچ کی طرف نظروں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مضبوط لوگ ہیں فکر مت کرو۔‘ سپریم کورٹ میں بلوچستان سے لاپتہ افراد کے مقدمے کی یہ 93 وویں سماعت تھی، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کافی پیش رفت ہوئی ہے، جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب ہوکر کہا کہ ’کب تک آگے بڑھتے رہیں گے جبکہ لوگوں کے گھروں میں آگ لگی ہوئی ہے ریاست کوئی کوشش نہیں کر رہی۔‘ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گمشدگی میں نامزد کئی افسر اور اہلکار واپس فوج میں چلے گئے ہیں۔ کچھ کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہو رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سویلین معاملہ ہے، گمشدگیوں کے مقدمے میں انہیں پیش کریں۔ وائس فار مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ لانگ مارچ کے بعد انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ ’گزشتہ شب جب ماما قدیر بلوچ کراچی پریس کلب سے اپنی رہائش گاہ لیاری جا رہے تھے۔ جب وہ راستے میں سامان لینے کے لیے رکے تو کچھ مسلح افراد نے انہیں اسلحے کے زور پر ڈرایا‘۔ نصراللہ بلوچ کے مطابق لاپتہ افراد کی بیٹیاں، بہنیں ڈری ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے ان کے بھائی کو کوئٹہ سے ایک سفید گاڑی میں سوار لوگوں نے اٹھایا یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ تمہارے بھائی نے اچھا نہیں کیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت کو ہدایت کی کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو کراچی میں تحفظ فراہم کیا جائے۔ عدالتی احکامات کے باوجود آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل اعجاز شاہد کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا، ایف سی کے وکیل کی پیش کی گئی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جسے عدالت نے قبول نہیں کیا، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی ایف سی کو طلب کیا تھا لیکن حکم کی تعمیل نہیں ہوئی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل بتائیں توہین عدالت کا نوٹس کس کو دیں؟ چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو حکم دیا باہر جائیں ، فون کریں، متعلقہ حکام سے پوچھیں کس کے خلاف کارروائی کرنی ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ جس کے پاس بندے ہوں گے اسے دینے چاہئیں۔ چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کیا مطلب کس کے پاس، آپ کے پاس ہیں، ثبوت موجود ہیں، بندے پیش کریں کچھ بھی کر لیں لاپتہ افراد تو آپ کو دینے پڑیں گے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا عدالت کا حکم آئی جی ایف سی تک پہنچانے کی کوشش کی مگر وقت کم تھا۔ چیف جسٹس نے کہا ایف سی کے جن افسروں کے خلاف مقدمات ہیں انہیں پیش کیوں نہیں کیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا اس سے متعلق سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ سے رپورٹس منگوائیں۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ صوبیدار مومن، میجر طاہر، کرنل نعیم کے خلاف الزامات ہیں۔ اس کے علاوہ بریگیڈیئر اورنگزیب سمیت 5 افراد کے خلاف الزامات ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف سی کا موقف ہے یہ افسران واپس آرمی میں جا چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہمیں پتہ ہے اگر یہ آرمی آفیسرز ہیں تو ہیڈ کوارٹرز سے کہیں کہ انہیں پیش کریں۔ عدالت نے ایف سی افسروں اور اہلکاروں کو ڈی آئی جی سی آئی ڈی کے روبرو اتوار تک پیش کرنے کا حکم دیا۔ عدالتی حکم میں یہ کہا گیا ہے کہ وقت کی کمی کے باعث آئی جی ایف سی عدالت میں پیش نہیں ہو سکے۔ عدالتی حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو کراچی میں تحفظ فراہم کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے بلوچستان سے لاپتہ افراد کے مقدمات میں ملوث 19 ایف سی افسروں و اہلکاروں کو یکم دسمبر تک ڈی آئی جی سی آئی ڈی کے روبرو پیش کرنے کا حکم دیا۔ بریگیڈیئر اورنگزیب ، صوبیدار ، مومن ، میجر طاہر اور کرنل ندیم سمیت 5 ایف سی اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج ہیں انہیں ہر صورت میں تفتیشی افسر کے سامنے پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل بلوچستان ساجد بھٹی سے استفسار کیا کہ کہ ڈی آئی جی ایف سی کو طلب کیا تھا ، حکم کی تعمیل نہیں ہوئی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل بتائیں کے توہین عدالت کا نوٹس کس کو دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ بھی کریں ، لاپتہ افراد آپ کو دینے ہی پڑیں گے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جس کے پاس بندے ہوں گے انہیں دینے چاہئےں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا مطلب ؟ لاپتہ افراد آپ کے پاس ہیں، جس کے تمام ثبوت موجود ہیں ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی عدالت سے باہر گئے۔ واپس آنے کے بعد انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کیس سے متعلق سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ سے رپورٹ منگوا لیں۔ ایف سی کے وہ اہلکار جن کے خلاف مقدمات درج ہیں ، وہ فوج میں واپس چلے گئے ہیں اور تفتیشی افسر کے سامنے پیش کرنا ہماری دسترس سے باہر ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ جن کے خلاف مقدمات درج ہیں وہ چاہے کہیں بھی ہوں انہیں تحقیقاتی افسروں کے سامنے پیش ہونا ہو گا۔ چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہا کہ اگر آپ بیچ میں نہ ہوتے تو آج احاطہ عدالت میں ڈی جی ایف سی موجود ہوتا ۔ اگر آپ کے اختیار میں نہیں ہے تو ہیڈ کوارٹر سے کہیں کہ وہ انہیں تفتیش کے لےے پیش کریں۔ سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔
لاپتہ افراد کیس