نواز شریف نے مشرف کے ٹرائل کا فیصلہ کرکے مسائل کھڑے کر لئے: اسلم بیگ
اسلام آباد (محمد فہیم انور) پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسلم بیگ نے کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے سے کسی کی ناانصافی نہیں ہوئی، بری فوج کی کمان کی تبدیلی کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا، منتخب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی کے امکان کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ’’نوائے وقت‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف ڈکٹیٹر تھے، انہوں نے ازخود اپنی ملازمتوں میں توسیع کی جبکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے پیش رو بعض جرنیلوں کے برعکس بروقت ریٹائر ہونے کا فیصلہ کرکے نہ صرف ملک و قوم کی نظروں میں بلکہ دنیا بھر میں پاک فوج کی ساکھ میں اضافہ کیا، جنرل ر بیگ نے کہا کہ میں بھی چاہتا تو اپنی ملازمت میں خود توسیع کروا لیتا مگر میں نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف سے چار ماہ پہلے کہہ دیا تھا کہ میری ریٹائرمنٹ قریب ہے نئے آرمی چیف کے بارے میں مشاورت کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے پاس آرمی چیف کی طرف سے جانے والے پانچ جرنیلوں کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ سخت جانچ پڑتال کے بعد ان کے ناموں کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا مغربی سرحدوں پر ملک و قوم کو درپیش خطرات سے دور رکھنا جنرل راحیل شریف کی سب سے بڑی ذمہ داری ہو گی۔ دہشت گردی، ڈرونز حملے سب سے بڑی لعنت ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو یقینی بنانے کیلئے افواج پاکستان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جنرل ر بیگ کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل شریف کو سوچ سمجھ کر چلنا ہو گا۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں فوج کی کمان سنبھالی جب نواز شریف حکومت نے مشرف کے خلاف ٹرائل شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کرکے نواز شریف نے اپنے لئے مشکلات پیدا کر لی ہیں۔ اگر نواز شریف پرویز مشرف کو باہر چلے جانے دیتے تو بہتر ہوتا۔ مصر کی مثال ہمارے سامنے ہے، صدر مرسی نے حکومت سنبھالنے کے بعد ایسے اقدامات کئے جو ان کی بساط سے باہر تھے۔ بالآخر ان اقدامات نے ان کے لئے مشکلات کھڑی کر دیں۔ دوسری جانب ترکی کے صدر اردگان اور عبداللہ گل نے سات سال تک قومی معیشت کو مستحکم کرکے قوم کا اعتماد حاصل کیا اس کے بعد افواج کے حوالے سے جو اقدامات کئے انہیں پوری قوم کی حمایت حاصل ہوئی ہماری حکومت کو ان چیزوں کو مدنظر رکھنا چاہئے تھا۔