سینٹ کمیٹی نے حکومت کو منافع بخش اداروں کی نجکاری سے روکدیا‘ معاملہ ایوان میں اٹھانے کی دھمکی
اسلام آباد (ایجنسیاں) سینٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ریونیو، اقتصادی امور و نجکاری نے حکومت کو تیل و گیس کی کمپنیوں سمیت منافع بخش سرکاری اداروں کی نجکاری سے روک دیا اور خبردار کیا ہے کہ حکومت نے سفارشات پر عملدرآمد نہ کیا تو معاملہ سینٹ میں اٹھائیں گے، صرف خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کی جائے‘ نجکاری کےلئے فنانشل ایڈوائزر کی تقرری میرٹ پر کی جائے۔ اجلاس میں انکشاف ہوا کہ پی آئی اے منافع میں چل رہی ہے تاہم اس کی ذیلی کمپنیاں بدترین خسارے کا شکار ہیں، سیکرٹری نجکاری کمشن نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت نے جن 31 قومی اداروں کی نجکاری کی منظوری دی ہے ان کی فہرست آئی ایم ایف نے نہیں دی، سٹیل ملز آخری سانسیں لے رہی ہے‘ پیداوار محض ڈیڑھ فیصد رہ گئی ہے، سٹیل ملز میں 550 مزدور اور 1400 افسران فالتو ہیں، رواں مالی سال کے دوران پی آئی اے، سٹیل ملز، پی پی ایل کے 26فیصد شیئر انتظامی حقوق کے ساتھ فروخت کیے جائیں گے‘ حبیب بینک، یو بی ایل، الائیڈ بینک اور مسلم کمرشل بینک کے بقیہ شیئرز بھی فروخت کئے جائیں گے، سینیٹر سردار فتح محمد حسنی نے الزام لگایا کہ سٹیل ملز کی انتظامیہ نے ضلع چاغی میں آئرن کی اپنی کانیں اونے پونے داموں بیچ دیں‘ باہر سے مہنگے داموں خام مال منگوانے سے خسارہ بڑھ گیا۔ سیکرٹری نجکاری کمشن نے قومی اداروں کی نجکاری کے حوالے سے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے 68 قومی اداروں کی نجکاری کی منظوری دے رکھی ہے جبکہ مذکورہ 31 ادارے بھی ان میں شامل ہیں۔ تاہم رواں مالی سال کے دوران سات اداروں کی نجکاری کی جائے گی جن میں پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز، پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے 26فیصد شیئر مع مینجمنٹ شفاف طریقے سے فروخت کئے جائیں گے۔ سٹیل ملز بند ہونے کے قریب ہے۔ اس کی نقد ایکویٹی منفی ہو چکی ہے۔ سالانہ خسارہ 36ارب روپے ہے جبکہ یہ محض 4سال منافع میں رہی۔ 2008 سے اب تک مسلسل خسارے میں ہے۔ سٹیل ملز کی کل زمین 14000 ایکڑ ہے جس میں 4000ایکڑ سٹیل ملز کے پاس جبکہ 10ہزار ایکڑ حکومت سندھ کے پاس ہے جو کہ دیگر صنعتیں لگانے کے لئے ہے۔ حکومت نے سٹیل ملز کا بورڈ آف گورنرز تبدیل کر دیا ہے جبکہ سٹیل ملز انتظامیہ نے بورڈ سے 36 ارب روپے کا بیل آﺅٹ پیکج مانگا تھا مگر بورڈ آف گورنرز نے تجویز مسترد کر دی۔ سول ایوی ایشن پورٹ قاسم اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کی نجکاری تو نہیں کی جائے گی مگر ان کو پرائیویٹ مینجمنٹ کے حوالے کرنے کا پروگرام ہے۔ کمیٹی کے رکن عثمان سیف اللہ نے کہا کہ حکومت نے سٹاک ایکسچینج کے بدنام زمانہ بروکر عارف حبیب کو سٹیل ملز کا فنانشل ایڈوائزر مقرر کیا۔ اس سے حکومت کی نیت صاف نہیں لگتی بلکہ لگتا ہے کہ سارے لوگوں نے مذکورہ اداروں کے قیمتی اثاثوں پر نظر گاڑ رکھی ہے۔ سیکرٹری نجکاری کمشن نے بتایا کہ خسارے میں چلنے والے ادارے سالانہ 500 ارب روپے ہڑپ کر رہے ہیں۔سینٹ کمیٹی نے نجکاری کے عمل کو سٹاک مارکیٹ کی سرگرمیوں سے منسلک کرنے کی سفارش کی ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے میں جلد بازی اور عجلت سے کام نہ لیا جائے، مارکیٹ میں تیزی پر اقدامات کئے جائیں اور مندے پر کسی ادارے یا اثاثے کو نجکاری کیلئے پیش نہ کیا جائے، کئی اثاثوں اور اداروں کی ایک ساتھ نجکاری نہ کی جائے۔