پاکستان تا ابد قائم رہے گا
روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کی 22 نومبر 2013ء کی اشاعت میں محترمہ شارہ شفیق صاحبہ کا ایک مضمون بعنوان ’’کیا پاکستان کا جغرافیہ تبدیل ہونے جارہا ہے؟‘‘ چھپا ہے، جس میں انہوں نے پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے مشاورت کے بعد موجودہ صورتِ حال کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہ کی تو خدانخواستہ پاکستان کا جغرافیہ تبدیل ہو جائیگا۔ ان کی اس تشویش کی ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ امریکی تھنک ٹینک کی پیشن گوئی کے مطابق 2015ء میں پاکستان اپنی موجودہ صورت میں برقرار نہیں رہیگا۔ ماضی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے وقت سے لیکر متواتر سازشوں کا شکار رہا ہے۔ اس ملک کے خلاف پہلی سازش انگریزوں اور کانگرس کے لیڈروں نے کی اور تقسیم ہند کے طے شدہ اصولوں سے انحراف کرکے وہ علاقے جو پاکستان میں شامل کرنے چاہئیں تھے پاکستان کو ان علاقوں سے محروم کردیا گیا۔ 1965ء جنگ کے سے پیچھے بھی ایک سازش ہی تھی۔ اگرچہ پاکستان کی محب وطن اور بہادر افواج نے جارحیت کا ارتکاب کرنے والے بھارت کے دانت کھٹے کردیئے اور اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کے بعد پاکستان دو لخت کرنے کی سازش کی گئی جس میں بھارت کی اندرا گاندھی کے علاوہ پاکستان کے اس وقت کے صدر یحیٰی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمن شامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا یہ نعرہ ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ محض ایک نعرہ ہی نہیں تھا۔ اس نعرے کے پیچھے ایک سوچی سمجھی سکیم اور حصول اقتدار کا ایک منصوبہ کار فرما تھا جس کے تحت بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے امریکہ کی اعانت اور تعاون سے پاکستان کو توڑنے کیلئے جر کردار ادا کیا وہ ساری دنیا پر عیاں ہے۔ اس نے یہ بات کہہ کر کہ ’’ہم ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے‘‘ پاکستان کے خلاف اپنے خبثِ باطن کا اظہار کردیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو آدھے پاکستان کے پہلے صدر اور پھر وزیراعظم بن گئے۔ وہ بلاشرکت غیرے اقتدار کے خواہش مند تھے، پاکستان ٹوٹ گیا اور ان کی خواہش بھی پوری ہوگئی۔ ان کے جانے کے بعد 2 دفعہ امریکہ کی مدد اور تعاون سے فوجی ڈکٹیٹر ملک پر قابض رہے۔ فوجی آمریت نے اس ملک کو کیا دیا اور کس حد تک عوام کے مسائل کو حل کیا؟ ہمارے سامنے مشکلات اور مسائل کا انبار اس بات کا شاہد ہے کہ انہوں نے پاکستان کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہی کیا اور اپنے اپنے دور میں اپنے اقتدار کا ڈنکا بجا کر رخصت ہو گئے۔
پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو حالات پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ ان حالات کو پیدا کرنے میں جہاں ہمارے اپنے لوگوں کی غلطیاں شامل ہیں وہاں بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کو ایک ایٹمی طاقت رکھنے والا اسلامی ملک قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اتحاد ثلاثہ ایسے حالات پیدا کرنے میں سرگرم عمل ہے کہ وہ دنیا پر یہ ثابت کرے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور پاکستان اپنی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اسلئے پاکستان کا وجود عالمی امن کیلئے مستقل خطرہ ہے۔ امریکہ کی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی چھڑی اور گاجر Stick and Carrot کی ہے یعنی ہم بظاہر اس کی مدد بھی کرتے ہیں اور اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بہت سے واقعات سیکرٹری خارجہ کی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ طالبان کون ہیں، یہ کہاں سے آئے، ان کو پذیرائی کہاں سے ملی، ان کو اسلحہ اور ڈالر بالواسطہ طور پر کون دے رہا ہے۔ کراچی سے اسلحہ سے لدے ہوئے سو کنٹینٹرز کیسے غائب ہوئے؟ وہ اسلحہ کس کے ہاتھ لگا۔ امریکہ کے سفیر کو اس کی تردید کی ضرورت کیوں محسوص ہوئی۔ یہ باتیں، یہ حقائق وہ ہیں جن کے آگے بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ ؎ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک بھنور میں، ایک گردابِ بلا میں پھنسا ہوا ہے۔
یہ ملک 20 کروڑ محب وطن پاکستانیوں کا وطن ہے۔ اس کی بنیاد میں شہداء کا خون رچا بسا ہے۔ اس کے قیام کیلئے بے شمار قربانیاں دی گئی ہیں۔ اس کی بقا اور استحکام کیلئے لاکھوں، کروڑوں ہاتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کیلئے شب و روز اٹھتے ہیں۔ بہت سے محب وطن افراد اس وطن کی خیر مانگتے ہیں۔ ایک مردِ مجاہد ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے نظریۂ پاکستان کے تحفظ کیلئے شمع روشن کی ہوئی ہے۔ اس شمع کی روشنی دور دور تک پھیل رہی ہے۔ ایک دن یہ روشنی اتنی پھیل جائیگی کہ ہمارے افق پر منڈلاتے ہوئے اندھیرے ہمیشہ کیلئے دور ہو جائیںگے اور وہ صبحِ درخشاں ضرور طلوع ہوگی جس کی ہمیں آرزو ہے، جس کا ہمیں انتظار ہے۔