لاپتہ افراد کل پیش کر دئیے جائیں‘ فیصلہ دیا تو وزیراعظم اور آرمی چیف متاثر ہو سکتے ہیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + این این آئی) سپریم کورٹ نے بلوچستان لاپتہ کیس میں حکومت کو 33 لاپتہ افراد پیش کرنے کیلئے 5 دسمبر تک مہلت دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی ایف سی 5 دسمبر کو پیش ہوں ورنہ عدالت توہین عدالت کی کارروائی کرے گی۔ چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واضح کیا ہے کہ لاپتہ افراد عدالت میں پیش نہ ہوئے تو فیصلے سے وزیر اعظم اورآرمی چیف متاثر ہوسکتے ہیں ٗ عدالتی حکم وزیر اعظم کو بھی ماننا پڑتا ہے اگر سکیورٹی کا مسئلہ ہے تو دیکھ لیا جائے گا منگل کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بینچ نے لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو وزیر دفاع خواجہ آصف پیش ہوئے جنہوں نے عدالت سے مہلت مانگی جس کے جواب میں عدالت نے کہا کہ مہلت نہیں ملے گی۔ چیف جسٹس نے وزیر دفاع سے کہا کہ بنچ رات گئے تک بیٹھے گا حکومت یا تو لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرے نہیں تو فیصلہ سنا دیا جائیگا جس سے وزیر اعظم یا بری فوج کے سربراہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ سماعت کے دوران قائم مقام سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایاکہ تین مزید افراد کا پتہ چلا ہے، حبیب اللہ 18 دسمبر 2012 کو پشاور سے بیرون ملک گیا، حبیب اللہ بحالی مرکز میں تھا، اسے چھوڑا گیا تو وہ بیرون ملک چلا گیا، دو مزید افراد کی شناخت ہوئی، عدالت سے استدعا ہے کہ ان کے بارے میں نہ پوچھے، ان دو افراد کی شناخت ظاہر کی گئی تو ان کی سکیورٹی کے مسائل پیدا ہوں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ محض تین لوگ ہیں، 30 فیصد لوگ بھی لے آتے تو کہتے کہ پیش رفت ہوئی، یہ مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہے، ہمیں لالی پاپ مت دیں،چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ تحریری طور پر بتائیں کہ ان لوگوں کو کب اور کہاں رکھا گیا، بتایا جائے کہ انہیں کب چھوڑا گیا؟ سیکرٹری دفاع نے کہاکہ لاپتہ افراد کی بازیابی بہت خطرناک عمل ہے، سردار علی اور ناصر خان کا پوسٹمارٹم ہوا، ان کی طبعی موت ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جو لوگ مرے ہیں، ان کا مقدمہ درج کرایا جائے، مکمل تحقیقات کی جائے پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹرز کو بھی شامل کریں وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت میں بیان دیا کہ مجھے چار دن ملے، یہ پیش رفت ہوئی، 5 لوگوں کا پتہ لگ گیا، وزیراعظم اور آرمی چیف سے بھی بات کی ہے لاپتہ افراد بازیاب ہوں گے، گمشدگی کے ذمہ دار افراد کے خلاف مقدمہ چلے گا، ماورائے آئین روایت ختم ہو گی۔ سماعت کے دوران قائم مقام سیکرٹری داخلہ ایڈیشنل سیکرٹری میجر جنرل ریٹائرڈ عارف نے بھی عدالت سے مہلت مانگی جس پر عدالت نے ان کو مہلت دیتے ہوئے حکم دیا کہ ڈھائی بجے تک لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کریں اس موقع پر ایڈیشنل سیکرٹری دفاع نے سیل بند لفافہ عدالت میں پیش کیا جسے عدالت نے لینے سے انکار کر دیا چیف جسٹس نے ایڈیشنل سیکرٹری دفاع کی سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ کل دو افراد کے مرنے کی اطلاعات تھیں 3 افراد کا پتا چل گیا، آپ کو سب پتا ہے کہ لاپتہ افراد کہاں ہیں حکم دیا تو مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لاپتہ افراد کو ایک گھنٹے میں پیش کرکے اپنی عزت بھی بچائیں اور ہمارا بھی خیال کریں۔ عدالت اس سے زیادہ سہولت نہیں دے سکتی۔ سماعت ایک بار پھر شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت معمولی وقت دے دے تو پیشرفت ہوگی جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ بار بار وقت دے رہے ہیں کوئی پیشرفت نہیں ہورہی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ اگر کوئی قصوروار ہے تو ا س کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے حکومت کو 5 دسمبر کی مہلت دیدی، چیف جسٹس نے کہاکہ پچھلی مرتبہ وزیر دفاع کے کہنے پر مہلت دی اور اب اٹارنی جنرل کے کہنے پر مہلت دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو پانچ دسمبر کو ٹھوس پیشرفت دکھانا ہو گی وزیر دفاع نے کہاکہ 33میں سے تین افراد کو بازیاب کرا لیا گیا ہے جن کے نام خفیہ رکھے گئے ہیں، چیف جسٹس نے نام خفیہ رکھنے کی استدعا منظور کرتے ہوئے کہاکہ آپ لوگ چاہیں تو لاپتہ افراد ایک گھنٹے میں بازیاب ہو سکتے ہیں چیف جسٹس نے وزیر دفاع سے کہا کہ آپ عدالت کو کب خوش کرینگے؟ بعد ازاں عدالت نے سماعت پانچ دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہاکہ آئی جی ایف سی پانچ دسمبر کو پیش ہوں ورنہ عدالت کارروائی کریگی ۔ چیف جسٹس نے 5 دسمبر تک مہلت دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو کہا ہم نے پہلے خواجہ آصف کو خوش کیا اب آپ کو کر رہے ہیں، آپ بتائیں آپ عدالت کو کب خوش کرینگے۔