بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان کے حامیوں کیخلاف انتقامی کارروائیوں کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مجید نظامی
لاہور (خصوصی رپورٹر) بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان کے حامیوں کیخلاف انتقامی کارروائیوں کا جو شرمناک سلسلہ شروع ہے‘ ہم اس کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو عوامی اُمنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی حکومت سے سفارتی سطح پر اس مسئلے کو اُٹھانا چاہئے اور عالمی سطح پر بھی اس ضمن میں رائے عامہ کو ہموار کرنا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان، شاہراہ قائداعظمؒ لاہور میں مشرقی پاکستان کے محب وطن جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے رہنمائوں کو بنگلہ دیش میں دی جانیوالی سزائوں کیخلاف منعقدہ فکری نشست بعنوان ’’بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال اور اس کا پس منظر‘‘ کے دوران کیا۔ اس نشست کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ اس موقع پر صدر سی پی این ای و ایڈیٹر انچیف روزنامہ ’’پاکستان‘‘ مجیب الرحمن شامی، ایڈیٹر روزنامہ ’’نئی بات‘‘ پروفیسر عطاء الرحمن، سمیحہ راحیل قاضی، کرنل (ر) زیڈ آئی فرخ، پروفیسر سلیم منصور خالد، سربراہ انٹرنیشنل پالیٹکس جماعت اسلامی عبدالغفار عزیز، جسٹس (ر) منیر احمد مغل، ممبر صوبائی اسمبلی رانا محمد ارشد، پروفیسر ڈاکٹر پروین خان اور فاروق خان آزاد سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد موجود تھی۔ نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک، نعت رسول مقبولؐ اور قومی ترانے سے ہوا۔ قاری امجد علی نے تلاوت کی سعادت حاصل کی جبکہ ضیاء اللہ طارق نے بارگاہ رسالت مآبؐ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے انجام دئیے۔ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن، ممتاز صحافی و چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنے پیغام میں کہا بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے پاکستان کے ازلی دشمن بھات کے ایما پر 1971ء کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران متحدہ پاکستان کے حامیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا جو شرمناک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے‘ میں اس کی پر زور مذمت کرتا ہوں۔ پاکستان کے عوام اس بے انصافی سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ حکومت پاکستان کو عوامی اُمنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی حکومت سے سفارتی سطح پر اس مسئلے کو اُٹھانا چاہئے اور عالمی سطح پر بھی اس ضمن میں رائے عامہ کو ہموار کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں اپنے وطن کی محبت میں دشمن کا مقابلہ کرنا کسی بھی طرح جرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جن لوگوں نے پاکستان بھارت جنگ کے دوران افواج پاکستان کے شانہ بشانہ دفاع وطن کا مقدس فرض ادا کیا‘ وہ ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہیں۔ پاکستان کی وزارت ِخارجہ کا یہ مؤقف کہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘ ایک غیرت مند قوم کے شایان شان نہیں۔ پاکستانی قوم نہ تو مشرقی پاکستان کو بھول سکتی ہے اور نہ ہی اپنے ان بھائیوں کو جو وطن کی آبرو پر قربان ہو گئے۔ سی پی این ای کے صدر و ایڈیٹر انچیف روزنامہ ’’پاکستان‘‘ مجیب الرحمن شامی نے کہا بنگلہ دیش میں انتخابات کی آمد آمد ہے اور وہاں غیر جانبدار عبوری حکومت کے زیر اہتمام آزادانہ اور شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کو داخلی سطح پر یہ چیلنجز درپیش ہیں کہ آزادانہ انتخابات اور جمہوریت کا تحفظ کیسے کیا جائے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کم ازکم مسلم لیگ کو جماعتی سطح پر لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک حکمت عملی مرتب کرنی چاہئے۔ تمام سیاسی جماعتوں خاص طور پر نظریۂ پاکستان کی علمبردار اور فکری اثاثے کی مالک جماعتوں سے مطالبہ ہے وہ موجودہ حالات میں اپنا کردار ادا کریں اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنائیں۔ میری تجویز ہے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کو بنگالی زبان کی کلاسز شروع کرانی چاہئیں اور دانشوروں و ریسرچ سکالرز کو اس جانب متوجہ کرنا چاہئے، اس کے علاوہ ایک ویب سائٹ قائم کی جائے جس میں اپنا مؤقف بنگالی زبان میں بھی پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا نظریۂ پاکستان ٹرسٹ مجید نظامی کی قیادت میں بہت احسن انداز میں کام کر رہا ہے، انہیں یہ کام بھی کرنا چاہئے۔ سال بھر میں پانچ یا سات سکالرز بھی بنگالی زبان سے آشنا ہو گئے تو یہ کامیابی ہو گی۔ انہوں نے کہا بھارت کا کردار ایسا رہا ہے جو اچھے ہمسائے کو زیب نہیں دیتا بلکہ اس نے دشمن کا کردار ادا کیا ہے اسی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔آج فکری محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کا کردار بڑا واضح ہے۔ یہاں سے قوم کی رہنمائی اور انہیں حقائق سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش سے ٹوٹے ہوئے رابطوں کو دوبارہ جوڑنا چاہئے۔ ایڈیٹر روزنامہ ’’نئی بات‘‘ پروفیسر عطاء الرحمن نے کہا افسوس کی بات ہے آج بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم اس سے غافل ہیں۔ پاکستان میں رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ بنگلہ دیش میں سیاست جو رخ اختیار کررہی ہے ہم اس سے لا تعلق نہیں رہ سکتے‘ یہ ہم پر بھی اثر انداز ہو گی۔ آج بھارت بنگلہ دیش میں اپنے مفادات کا تحفظ کررہا ہے اور اس کے ادارے وہاں مسلسل کام کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے الیکشن جلد ہوں اور عوامی لیگ دوبارہ برسر اقتدار آجائے۔ ہماری حکومت کو بھی واضح حکمت عملی اپنانی چاہئے لیکن شاید ہم انہیں بھول چکے ہیں۔ مشرقی پاکستان ہماری غفلتوں کی وجہ سے ہی ہم سے علیحدہ ہوا۔ آج ایک بار پھر وہی غفلت برتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے بہاریوں کیلئے دو دہائیوں سے ایک فنڈ قائم کر رکھا ہے جس سے ان کی مدد کی جارہی ہے اور کوئی ادارہ ان کی مدد نہیں کر رہا ۔ آج تقاریر اور بیانات کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا میرے آغا جان (قاضی حسین احمد مرحوم) 16 دسمبر 1971ء کی رات کو اپنی زندگی کے آخر تک نہیں بھلا پائے۔ نئی نسل کو حقائق سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ قوم کو متحد ہو کر بنگلہ دیش میں مظالم کا شکار محب وطن عناصر کیلئے آواز بلند کرنی چاہئے۔ کرنل (ر) زیڈ آئی فرخ نے کہا جماعت اسلامی کے رضا کاروں نے 1971ء میں فوجی آپریشن کے دوران گرانقدر خدمات انجام دیں اور ان کی قربانیوں کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس خون کا قرض ہے کہ ہم ان کے حق میں آواز بلند کریں۔ عبدالغفار عزیز نے کہا نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کا وجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک نعمت ہے جہاں سے پوری قوم کو پاکستان اور اس کے اساسی نظریات سے آگہی فراہم کی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان کیلئے قربانیاں دینے والے محب وطن عناصر کو نام نہاد عدالتی ٹربیونل کی طرف سے سزائیں دی جا رہی ہیں جن کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ پروفیسر سلیم منصور خالد نے کہا آج میڈیا کا ایک حصہ پرو انڈین ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ قوم 1947ء میں دی گئی قربانیوں کو فراموش کرتی جا رہی ہے، نصاب تعلیم میں سے بھی بہت سے اہم ابواب کو نکال دیا گیا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے پوری قوم بالخصوص نئی نسل کو تاریخی حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ شاہد رشید نے کہا بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان کے حامیوں کو سزائوں کا معاملہ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ ہم متحدہ پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا اور شرمناک سلوک کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ اس معاملے پر آواز بلند کرے۔