• news

کراچی میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ناقص ہو چکی، لوگ گواہی نہیں دیتے ۔ چیف جسٹس

اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ کراچی میں وکیل کے بیٹے کے اغوا اور مکان پر قبضہ کرنے کے واقعہ میں ملوث افراد کو 6 دسمبر تک گرفتار کر کے گمشدہ نور محمد کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے وگرنہ وقوعہ کے وقت کے ملیر میں تعینات پولیس افسروں کیخلاف کارروائی کی جائیگی۔ عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کو آئندہ سماعت پر عدالت طلب کر لیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ناقص ہو چکی ہے کہ اگر پڑوس میں کوئی اغوا ہو رہا ہو تو اس کی اطلاع دینے کی ہمت بھی کوئی نہیں کرتا کہ کہیں ملزمان اسے بھی اغواء نہ کر لیں۔ پولیس چھوٹے ملزموں کو گرفتار کر کے بڑے اور با اثر ملزمان کو پروٹوکول فراہم کرتی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ درخواست گزار عبدالستار ابڑو نے موقف اختیار کیا کہ 27فروری2012 ء کو اس کے بیٹے نور محمد کو با اثر ملزمان نے پولیس کی ملی بھگت سے اغواء کیا۔ پولیس کے استفسار پر ڈی آئی جی سندھ امان اللہ جاکھرانی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے تاہم درخواست گزار اپنے مکان پر قبضے کے حوالے سے درست معلومات عدالت کو فراہم نہیں کر رہا۔ درخواست گزار کے پڑوسیوں نے بھی اس بات کی نفی کی ہے کہ اس کے مکان پر زبردستی قبضہ کیا گیا۔ اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ عام افراد پولیس اور ملزمان کے خوف کے باعث اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہونیوالے واقعات بارے میں بھی گواہی نہیں دیتے کہ کہیں کل کو انہیں بھی کسی مقدمے میں نہ دھکیل دیا جائے، لوگ دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ درخواست گزار کے بیٹے کو جلد از جلد بازیاب کرا کر عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ سماعت 6 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس نے ڈی آئی جی سمیت 15 پولیس افسران کے عدالت پیش ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسران حکومتی خرچے پر آنے جانے کا ٹی اے ڈی اے وصول کر نے عدالت آ جاتے ہیں جن افسران کو بلایا جاتا ہے، آئندہ اگر ان کے علاوہ کوئی پولیس اہلکار عدالت آیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔

ای پیپر-دی نیشن