مادر علمی کی گود میں
وحدت روڈ پر میرا گھر ہے۔ یہاں ایک بس کو جلایا گیا۔ مسافروں کو باہر نکلنے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ انہوں نے چھلانگیں لگا کے جان بچائی۔ یہ ظالمانہ کارروائی ہے۔ اسے کسی لحاظ سے طالب علمانہ کارروائی نہیں کہا جا سکتا یہ غنڈہ گردی ہے۔ اس دور میں شریف آدمی کی کوئی زندگی نہیں۔ درندگی کے سامنے شرمندگی ہی رہ گئی ہے۔ جو درندہ نہیں بن سکتا۔ وہ شرمندہ ہونے اور زندہ ہونے میں فرق کرنا چھوڑ دے۔ جہاں بس جلائی گئی وہاں سے چند قدموں کے فاصلے پر برادرم لیاقت بلوچ کا گھر ہے۔ لیاقت بلوچ کسی زمانے میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے میں اس زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کے میگزین ’’محور‘‘ کا چیف ایڈیٹر تھا۔ مجھے حیرت ہے کہ اساتذہ کے ساتھ توہین اور تشدد کا رویہ رکھنے والے لوگ اسلامی روایات کی بات کیسے کرتے ہیں؟ میں قاضی حسین احمد مرحوم سے دوستی رکھتا تھا تو یہ کون نوجوان ہیں جو ہر غیرقانونی حرکت کو جائز سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹی میں متبادل انتظامیہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکمرانی اور من مانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے علمبردار ہیں۔
امیر العظیم جو ایک کھلے دل کے آدمی ہیں اس کے دوستوں میں ان لوگوں کی اکثریت ہے جو نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے بہت دور ہیں۔ دوستوں کو اس طرف توجہ کرنا چاہئے اور ان نوجوانوں کی راہ راست پر لانا چاہئے جو تعلیمی اداروں کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ استاد کا ایک مقام ہے۔ اس کے احترام کو بہرحال ملحوظ رکھنا چاہئے۔ میرے آقاؐ نے فرمایا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو آپؐ نے ماں کے حوالے سے کوئی تخصیص نہیں فرمائی۔ ماں تو ماں ہے جس کی بھی ماں ہو اور جیسی بھی ہو کوئی ماں اپنے بچوں کی مخالف نہیں ہو سکتی۔ استاد جیسا بھی ہو وہ اپنے طالب علموں کا دشمن نہیں ہو سکتا۔
پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے جن اساتذہ کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا۔ ان کی شہرت ایک اچھے استاد کی ہے۔ پروفیسر نعیم اللہ اس واقعے کے بعد بھی اپنے ساتھ بدتمیزی کرنے والے طالب علموں کے لئے کسی انتقامی رویے کا اظہار نہیں کر رہے تھے۔ چند طالب علموں نے بجلی کاٹ دی۔ کیمرے توڑ دئیے۔ استاد کو یرغمال بنا لیا۔ فائرنگ کی گالیاں نکالیں۔ جب موقعے پر وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران پہنچے تو صورتحال پر قابو پایا جا سکا ڈاکٹر مجاہد کامران سائنس کے پروفیسر ہیں مگر شعر و ادب اور علم و ہنر کے ساتھ گہرا ذوق و شوق رکھتے ہیں وہ پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی کو صحیح معنوں میں مادر علمی بنانا چاہتے ہیں۔ مادر علمی اور مادر وطن کی سرحدیں مل جا پائیں تو ہمارا ملک ایک باوقار اور مہذب ملک بن جائے۔ جب دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر کامران نے مجاہد صحافت مجید نظامی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی تو شاید یہ پہلا موقع تھا کہ لفظ و خیال کی عظمت اور آزادی اظہار کی حقیقت کو تسلیم کیا گیا مجیب شامی نے اسے بڑی معرکہ آرائی قرار دیا۔
پوری دنیا میں حکومت اور حکمت کے امتزاج سے قوموں کا مزاج بنانے والے یونیورسٹی پروفیسروں سے رہنمائی اور مدد سے کامیاب ہوئے۔ ہماری یونیورسٹیاں بھی تخلیقی تحقیقی اور تہذیبی لحاظ سے اس مقام پر ہونا چاہئیں۔ تعلیمی ادارے ہر طرح کی سیاست سے پاک ہوں تو بڑے آدمی سامنے آئیں گے اور تعمیر و ترقی میں معاون ثابت ہوں گے۔ اس کے لئے تعلیم و تربیت کے ذوق کو اپنا طرز عمل بنانا ہو گا۔
تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس یونین پر پابندی لگی تو اس کا سبب بھی یہی طلبا گردی اور طالب علمانہ سیاست کی ملکی سیاست سے ہمرنگ کرنے کی کوشش تھی۔ اب وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہود نے سب طلبہ تنظیموں پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ اس میں اسلامی جمعیت طلبہ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن اور مسلم لیگ کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی شامل ہے۔ شہباز شریف نے طالب علموں کے اس رویے کے خلاف سخت اقدام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہر صورت میں اساتذہ کے مقام کا تحفظ کیا جائے گا۔ وہ اپنے اساتذہ کے لئے بہت عزت دل میں رکھتے ہیں۔ 16 نمبر ہوسٹل میں چند طالب علموں کا قبضہ ختم کرانے کے لئے کارروائی کی گئی کہ وہاں دربدر بھٹکتی ہوئی طالبات کو ایڈجسٹ کرنا تھا۔ اب لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے بڑھتی جا رہی ہے جبکہ لڑکوں کے ہوسٹل 18 ہیں اور لڑکیوں کے ہوسٹل 10 ہیں وہ گیلری کامن روم اور Pray Room (مسجد) وغیرہ میں بسترے لگا کر پڑی ہوتی ہیں۔ ایک ایک کمرے میں پانچ پانچ طالبات کو رکھا جاتا ہے۔ جو بہت تکلیف دہ ہے 16 نمبر میں چند طالب علموں نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ جن میں باہر کے لوگ بھی تھے کئی تعلیمی اداروں میں شرپسندوں کو گرفتار کرنے کے لئے چھاپے بھی مارے گئے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کارروائی کے ذریعے طالبات کا ایک جینوئن مسئلہ حل کر دیا ہے۔ طالبات فائرنگ اورطلبا گردی کے مقابلے میں ڈٹ گئیں اور اب ماحول پرسکون ہو گیا ہے۔ اب لگتا ہے کہ یہ طالب علموں کے ہوسٹل ہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق لڑکوں کے کمروں سے شراب اور ہر طرح کی منشیات کے علاوہ اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔ کچھ کمروں کو ٹارچر روم کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس ساری کارروائی کے حوالے سے ڈاکٹر شوکت نے بڑی لرزہ خیز اور خوفناک تفصیلات بیان کی ہیں۔ انہوں نے بہت موثر کردار ادا کیا ہے۔ یہاں طلبہ، انتظامیہ کے سب اختیارات اپنی مرضی کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ دہشت گردی کے علاوہ دہشت زدگی کا سماں بھی پھیلا ہوا تھا۔ دہشت زدگی دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ جن معاملات کو جینوئن طریقے سے جائز بنایا گیا ہے۔ ان سے لاکھوں کی آمدنی یونیورسٹی کو ہوتی ہے۔ اس سے پہلے ایک کنٹین کا سال بھر کے لئے کرایہ صرف ایک ہزار روپے تھا۔ یہاں کئی طرح کے مفادات وابستہ کر لئے گئے تھے۔ ورنہ شہر بھر میں ٹریفک بلاک کرنے اور بسیں جلا کے لوگوں کو مصیبت میں مبتلا کرنے کے واقعات تھوڑے سے اختلافات کا نتیجہ نہیں ہیں۔میری ان طالب علموں سے اور ان کی سرپرستی کرنے والوں سے گزارش ہے کہ تعلیمی اداروں خصوصاً تاریخی پنجاب یونیورسٹی میں تعلیمی ماحول قائم کرنے میں تعاون کیا جائے۔ طالب علموں کو طالب علم کی طرح طرز عمل اور طرز احساس رکھنا چاہئے۔ کراچی یونیورسٹی والی تاریخ پنجاب یونیورسٹی میں نہ دہرائی جائے تو اچھا ہو گا۔ یونیورسٹیوں کو میدان جنگ نہیں بننا چاہئے۔ طالب علموں کو آپس میں نہیں لڑنا چاہئے۔ اساتذہ کے احترام کے بعد ہی کوئی اپنے آپ کو طالب علم کہہ سکتا ہے۔ مادر علمی کی گود میں فیض پانے والے بچے ہی بڑے آدمی بنتے ہیں۔