جنرل راحیل شریف اور شریف فیملی
جب سے جنرل راحیل شریف کو نواز شریف نے آرمی چیف بنایا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ راحیل شریف نواز شریف کے کیا لگتے ہیں۔ دروغ برگردن راوی‘ سنا ہے کہ راحیل شریف کشمیری ہیں۔ پہلے بھی ایک جنرل بٹ صاحب کو نواز شریف نے آرمی چیف بنایا تھا۔ انہیں فوج نے ہی قبول نہ کیا۔ اس بہانے سے یہ تو ہوا کہ ضیاء الدین بٹ صاحب جنرل ہو گئے۔ اب تو انہیں پنشن وغیرہ کے بقایا جات ملنا چاہئے۔ اب جو لوگ نواز شریف کے قریب ہیں بلکہ ’’عنقریب‘‘ ہیں وہ تقریباً سارے کسی نہ کسی طرف سے کشمیری ہیں۔ ڈار خواجے بٹ صاحبان وغیرہ وغیرہ۔ تو ان حضرات سے گزارش ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لئے بھی کوشش کریں ورنہ خواہش تو کریں۔
آپ لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو نواز شریف سے بات کر سکتا ہو تو انہیں سمجھائے کہ ’’بھارت دوستی‘‘ کو کشمیر کے ساتھ منسلک کرکے دیکھیں۔ ورنہ یہ ’’دوستی‘‘ پاکستان کی تو نہ ہو گی۔ صرف نواز شریف کی ہو گی۔ وزیراعظم نواز شریف پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔ ان سے امید بھی ہے جبکہ اب لوگ صرف مایوس ہیں۔ اب انہیں مایوس ہونا بھی نصیب نہیں ہے۔
جنرل راحیل شریف کے لئے یہ منصب ان کا استحقاق تھا۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ آرمی چیف کا بیٹا آرمی چیف بن گیا ہو۔ سیاست میں تو چلتی ہی رشتہ داری ہے۔ یہاں کوالیفکیشن اور میرٹ ہے۔ اسمبلیوں میں چند خاندان قبضہ گروپ بن گئے ہیں۔ ان کے بیٹے بیٹیاں بھانجے بھانجیاں وغیرہ وغیرہ۔ سمیرا ملک اور عائلہ ملک سردار فاروق لغاری کی بھانجیاں ہیں۔ جنرل مشرف کے بعد ایک کو نواز شریف نے اور دوسری کو عمران خان نے اپنی پارٹی میں ملا لیا ہے۔ میرٹ ہے کہ دونوں بہنوں نے ایک ساتھ ترقی کی ہے۔ دونوں ممبر اسمبلی بنیں ایک وزیر دوسری وزیر کی بیوی بنی۔ دونوں کی ڈگری جعلی نکلی دونوں نااہل ہوئیں۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اسمبلیوں میں بھی لوگ جعلی ڈگری وغیرہ کے لئے عدالتوں سے نااہل نہیں ہوئے۔ وہ بھی نااہل ہیں۔ شاید سیاست میں آنے اور اسمبلی اور کابینہ میں آنے کے لئے نااہل ہونا شرط ہے۔ اب تو پوتے بھی رنگ جمانے لگے ہیں۔ گوہر ایوب صدر جنرل ایوب کا بیٹا ہے اور عمر ایوب پوتا ہے۔ گوہر ایوب مادر ملت کے خلاف گندی باتیں کرتا تھا۔ نواز شریف نے اسے اپنا وزیر بنا لیا۔ عمر ایوب کو جنرل مشرف نے وزیر بنا لیا۔
کسی جنرل آرمی چیف یا جنرل صدر کا بیٹا اس کی زندگی میں سیاست اور حکومت میں نہ آیا۔ لوگ جانتے ہی نہیں کہ جنرل مشرف کے بیٹے کا کیا نام ہے۔ ایک بار جنرل مشرف کی بیٹی کو ٹریفک پولیس نے روک لیا تھا۔ ٹریفک پولیس کسی سرکاری سیاستدان وزیر شذیر وغیرہ وغیرہ کے بیٹے کو روک کے دکھائے۔
جنرل راحیل شریف شہید میجر کا بھائی ہے اور انہیں نشان حیدر ملا ہے۔ جنرل راحیل شریف یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ نشان حیدر میجر شبیر شریف شہید کو بھارت کے خلاف جنگ میں بے پناہ جراتوں اور قربانیوں کے بعد ملا تھا اور جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف وزیراعظم نواز شریف نے بنایا ہے جو آج تو خیر تبدیل شدہ ہیں اور بھارت کے ساتھ غیر مشروط یکطرفہ اور منت سماجت والی دوستی کے لئے سرگرم تھے۔ ہم نے ایٹم بم بھی بھارت کے مقابلے کے لئے بنایا۔ گزشتہ روز کے بیان میں میاں صاحب نے ایٹمی جنگ کی چتاؤنی دی ہے مسئلہ کشمیر پر ہے! ہماری فوج دنیا کی چند بہترین افواج میں سے ہے۔ مگر اس مستحکم مضبوط اور قومی ادارے کو بدنام اور ناکام کرنے کے لئے اندرونی اور بیرونی حوالے سے کوششیں اور سازشیں جاری ہیں۔ جنرل کیانی نے پاک فوج کی عزت کو بحال کیا۔ لوگ اپنی فوج سے غافل نہیں ہیں ان کے اندر محبت کے دریا موجزن ہیں۔ اب بھی شہداء کے جسد خاکی اپنے لوگوں کے پاس پہنچتے ہیں تو وہی ترانے گونجتے ہیں جو پاکستان بھارت جنگ کے دوران بنائے گئے تھے۔
میرے ڈھول سپاہیا تینوں ربدیاں رکھاں
جس طرح جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ مجھے پاک فوج کے سپہ سالار ہونے پر فخر ہے۔ وہ اس افتخار کو پوری قوم کا افتخار بنا دیں اور وہ بنا سکتے ہیں۔ چند دن پہلے ہم ترکی میں تھے۔ وہاں استنبول میں جگہ جگہ مسلم سپہ سالاروں کی عظیم الشان یادگاریں ہیں۔ وہی سلطان تھے مجھے لگتا ہے کہ سلطان حکمران سے مختلف ہوتا ہے۔ ہماری تاریخ مسلمان سپہ سالاروں کی تاریخ ہے۔ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جرنیل قومی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ نظریاتی سرحدوں کا دفاع بھی کریں۔ جنرل کیانی نے ہمیشہ نظریہ پاکستان کی اہمیت کو نظرانداز نہ کرنے پر زور دیا۔ میں نے برادرم شاہد رشید سے گزارش کی تھی کہ وہ نظریہ پاکستان کے پاسبان ڈاکٹر مجید نظامی کی صدارت میں ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل کیانی کو بلائیں۔ جنرل راحیل شریف کے دل میں یہ بات زندہ رہنا چاہئے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عظیم الشان فوج کے سپہ سالار ہیں۔ نواز شریف مسلم لیگ ن کی طرف سے جیت کر آئے ہیں مگر وہ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔
جنرل راحیل شریف شاید تیسرے نمبر پر تھے۔ جنرل مشرف بھی تیسرے نمبر پر تھے۔ نواز شریف کے ذہن میں آرمی چیف بنانے کے لئے ایک ہی معیار ہے۔
ممنون حسین کو صدر بنانے کے لئے بھی نواز شریف نے یہی سوچا ہے۔ انشاء اللہ وہ تو نواز شریف کے ممنون رہیں گے۔ ان کے نام میں نون بھی آتا ہے۔ جبکہ چودھری نثار کہتے ہیں کہ یہ نون میرے نام کا حصہ ہے۔ نواز شریف نے ان کو بھی سوچ سمجھ کر اختیارات دیئے ہوئے ہوں گے۔ ورنہ وہ اختیار اور اقتدار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔
جنرل راحیل شریف پورا استحقاق رکھتے ہیں کہ انہیں اس اعلیٰ منصب پر فائز کیا جائے۔ ان کے گھر کی روایات نے انہیں یہ عسکری مرتبہ عطا کیا ہے۔ یہ بھی بڑی بات ہے کہ سیاسی شریف خاندان کے علاوہ بھی کسی آدمی کے نام کا حصہ شریف ہو سکتا ہے مگر لوگ اس حوالے سے بڑی دلچسپ باتیں بھی کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جس شخص کے نام کے ساتھ شریف لگتا ہے وہ نواز شریف کو اطلاع دے تاکہ اسے مناسب عہدہ دیا جائے میں اس حوالے سے اپنے دوست اور بہت اعلیٰ شاعر خالد شریف کا نام پیش کرتا ہوں۔ ان کا ایک شعر تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ عرض ہے۔
آیا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کر حیران گیا