• news

52 ارب ترقیاتی فنڈز غیر قانونی قرار، پرویز اشرف اور دیگر کیخلاف فوجداری کارروائی کی جائے ۔ سپریم کورٹ

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے بلوچستان میں سابقہ دور کی ترقیاتی سکیموں کا فرانزک آڈٹ کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ بلوچستان حکومت 75 فیصد باقی ماندہ سکیموں کا فرانزک آڈٹ کرائے۔ پی کے میپ کے زیارت وال نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی سپریم کورٹ نے کہا کہ رپورٹ ملنے کے بعد معاملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھیجا جائے۔ گزشتہ دور میں تمام جماعتوں کے ارکان حکومت میں تھے سوائے ایک یا دو کے بلوچستان میں پبلک فنڈز کی جانچ پڑتال کیلئے پبلک اکائونٹس کمیٹی ہی نہیں تھی۔ اسلام آباد (نیٹ نیوز+ نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کے اجرا کے معاملے میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور دیگر ذمہ داروں کیخلاف فوجداری قوانین کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ 52 ارب روپے مالیت کے ان صوابدیدی فنڈز کی تقسیم کے معاملے پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے ازخود نوٹس کا فیصلہ سنا دیا۔ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کے نام پر رقم کا اجرا غیر قانونی تھا۔ اس معاملے میں ضابطے اور قوانین کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں، من پسند افراد کو نوازا گیا۔ راجہ پرویز اشرف نے بطور وزیرِاعظم اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ راجہ پرویز اشرف کے وکیل وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ ترقیاتی فنڈز جاری کرنا وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے جسے کسی عدالت میں چیلینج نہیں کیا جا سکتا تاہم عدالت نے کہا کہ جن ترقیاتی منصوبوں کے لئے قواعد و ضوابط کے مطابق رقم جاری ہوئی ان پر کام جاری رکھا جائے۔ بی بی سی کے مطابق سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے دور حکومت میں دو سابق وزیرِاعظموں یوسف رضا گیلانی اور چودھری شجاعت کے علاوہ متعدد من پسند ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں رقوم جاری کی تھیں۔ ان فنڈز کی فراہمی کے لئے بھاشا ڈیم اور لواری سرنگ کے منصوبوں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی مد سے 25 ارب روپے نکلوائے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے صوابدیدی فنڈز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا ترقیاتی فنڈز سے متعلق صوابدیدی اختیار غیرآئینی ہیں۔ آئین وزیراعظم، وزیراعلیٰ کی صوابدید پر ارکان پارلیمنٹ کو فنڈز کی اجازت نہیں دیتا۔ فنڈز کا استعمال آئین کے آرٹیکل 80 سے 84 کے تحت کیا جا سکتا ہے۔ حکومت ترقیاتی سکیمز کیلئے فنڈز کی فراہمی میں ایک طریقہ کار اپنانے کی پابند ہے۔ اسمبلی کی منظور کردہ گرانٹ انتظامیہ صوابدید کے تحت استعمال نہیں کر سکتی۔ ترقیاتی فنڈز طریقہ کار کے تحت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بجٹ میں منظور کی گئی رقم صرف ظاہر کئے گئے مقاصد کیلئے استعمال ہو سکتی ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ فنڈز کو مختص کرنے کیلئے طریقہ کار وضع کرنے کیلئے طریقہ کار وضع کرے۔ ضمنی گرانٹ کیلئے آرٹیکل 80 سے 84 پر سختی سے عمل ضروری ہے۔ آئین کے تحت ضمنی گرانٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری لینا ہوتی ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ فنڈز غیر قانونی طور پر جاری کئے گئے۔ فنڈز جاری کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف سول اور فوجداری کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ترقیاتی فنڈز کے اجراء کے لئے اختیارات کا غیر قانونی استعمال ہوا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ منصوبوں کی رقم کو وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈ میں منتقل کرنا غیر قانونی اقدام تھا۔ عدالت نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔ کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ راجہ پرویز اشرف نے گوجر خان اور ملک کے دیگر علاقوں کے لئے فنڈز جاری کئے تھے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ترقیاتی سکیموں میں بے ضابطگیاں پائی گئیں، وزیراعظم نے من پسند افراد کو فنڈز جاری کئے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے راجہ پرویز اشرف کی طرف سے اپنے حلقہ میں ترقیاتی سکیموں کے لئے فنڈز جاری کرنے کی خبروں کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ سابق وزیراعظم کے پاس 22 ارب روپے کے صوابدیدی فنڈز استعمال کرنے کا اختیار تھا تاہم انہوں نے 47 ارب روپے کے صوابدیدی فنڈز جاری کئے اور اس مقصد کے لئے دیگر منصوبوں کی رقم منتقل کی گئی جس میں بھاشا ڈیم، لواری ٹنل منصوبہ، ایچ ای سی کے وظائف کے لئے مختص رقم کو منتقل کیا گیا یہ رقم ایسے افراد کو جاری کی گئی جو ارکان پارلیمنٹ بھی نہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ فنڈز کی منتقلی اور اجراء کا طریقہ کار غیر قانونی خلاف ضابطہ اور وزیر اعظم نے اختیارات سے تجاوز کیا۔ راجہ پرویز اشرف نے ایسے منصوبوں کے لئے رقم جاری کی جو منظور شدہ نہیں تھے۔ راجہ پرویز اشرف نے جن افراد کو فنڈز جاری کئے ان میں چودھری شجاعت، چودھری وجاہت، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، ان کے بیٹوں عبدالقادر گیلانی، علی موسی گیلانی، مونس الٰہی اور دیگر افراد شامل تھے۔ فیصلہ سنائے جانے کے وقت فریقین میں سے کسی کا کوئی وکیل یا وہ خود عدالت میں موجود نہیں تھے۔ چیف جسٹس نے فیصلہ میں لکھا ہے کہ فنڈز اجراء پیپرا رولز کی خلاف ورزی تھی اور قواعد و ضوابط سے ہٹ کر وزیر اعظم کا کوئی اختیار اور صوابدید نہیں۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ وزیر اعظم کی صوابدید یہ نہیں وہ قواعد و ضوابط سے ہٹ کر فنڈز کا اجراء کرے۔ 

ای پیپر-دی نیشن