آئی جی ایف سی کو توہین عدالت کا نوٹس ۔۔۔ لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے آج تک مہلت، خوشخبری دیں گے، خواجہ آصف
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران وزیر دفاع کا وزیراعظم میاں نوازشریف کو فون آیا جبکہ بعدازاں ان سے ملاقات بھی کی، وزیراعظم نے معاملے پر ڈی جی آئی ایس آئی سے مشاورت کے بعد لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرنے کی یقین دہانی کرانے کی ہدایت کی جس پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت کو کچھ لاپتہ افراد آج عدالت میں پیش کرنے کا یقین دلاتے ہوئے تحریری رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔ وزیر دفاع نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم ان سے فون پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت احکامات سے پہلے ان سے بات کا موقع دے جس پر عدالت نے انہیں بات کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو معاملے سے آگاہ کریں اور اگر آپ کی کوئی میٹنگ وغیرہ ہو تو اسے آج کینسل کر دیا جائے، فون کے بعد وزیر دفاع نے عدالت سے مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جمعہ کو رجسٹرار آفس کو خوشخبری دیں گے، چار پانچ افراد کو پیش کر دیا جائے گا۔ اس پر عدالت نے کہا کہ رجسٹرار کو کیوں؟ اچھی خبر دیتے ہیں تو عدالت کو دیں اور پورے تیس لاپتہ افراد کو پیش کریں، اب وزیراعظم معاملے میں آئے ہیں تو یہ معاملہ ضرور حل ہو جائے گا۔ ان کا تو کسی بھی کام کے لئے ایک اشارہ چلتا ہے۔ کیس کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں لاپتہ افراد سے متعلق لوگوں کے دکھ کا احساس ہے ان کی بازیابی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے، لاپتہ افراد کے الزامات کو عدالت دیکھے کہ وہ بے گناہ ہیں یا مجرم عدالت عظمیٰ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ مسئلہ کئی سال سے چل رہا ہے لاپتہ افراد کو عدالت لانے میں سکیورٹی مسائل ہیں لاپتہ افراد کی تلاش کے لئے عدالت سے مہلت لی رات تک انہیں ڈھونڈ لیں گے، معاملے کو آئین و قانون کے مطابق حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز + نیٹ نیوز + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے مقدمے میں آئی جی فرنٹیئر کور میجر جنرل اعجاز شاہد کو توہین عدالت کے معاملے میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 9 دسمبر کو طلب کیا گیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت کو بتایا کہ جمعہ کو رجسٹرار کو اچھی خبر دیں گے۔ جس پر عدالت نے کہا کہ رجسٹرار کی بجائے عدالت کو اچھی خبر دی جائے، جمعہ کو تیس لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ بی بی سی کے مطابق ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی حاضر سروس جنرل کو توہین عدالت کا نوٹس دیا گیا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر میجر جنرل اعجاز شاہد کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے لیکن عدالت نے یہ کہہ کر ان کا وکالت نامہ مسترد کر دیا کہ اس پر ان کے مؤکل کے دستخط نہیں۔ عرفان قادر نے عدالت سے استدعا کی کہ اس مقدمے کو کچھ عرصے کے لئے مؤخر کر دیا جائے اور توہین عدالت کا نوٹس جاری نہ کیا جائے لیکن عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ جب تک آئی جی ایف سی عدالت میں پیش نہیں ہوتے انہیں کسی قسم کی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی ایف سی خود پیش ہوں اور عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے کی وضاحت کریں۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ سے کہا کہ وہ توہین عدالت کے نوٹس پر عملدرآمد کرائیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عدالت میں پیش ہونے سے کسی ادارے کا حوصلہ پست نہیں ہو سکتا۔ عدالت کو نیچا دکھانے کی روش برداشت نہیں کی جائے گی۔ 30 لاپتہ افراد کے معاملے میں سپریم کورٹ کو اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بتایا کہ معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کہنے پر ہی دو دن دئیے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں وزیر دفاع کو اس لئے طلب کیا گیا تھا کہ وہ اس معاملے کو حل کر سکیں لیکن اب ہمیں بادل ناخواستہ کسی بڑے کو بلانا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے وزیر دفاع سے استفسار کیا کہ آیا عدالت کے متوازی بھی کوئی نظام چل رہا ہے جو احکامات پر عمل نہیں کر رہا۔ سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد پیش کرنے کے لئے وزیر دفاع کو آج شام 4 بجے تک کی مہلت دی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ لاپتہ افراد آج ہی ہر حال میں پیش کئے جائیں۔ اس کیس کا فیصلہ بھی آج ہی ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا ہمیں رات کو گھر سے آنا پڑا تو آئیں گے۔ وزیر دفاع مسئلہ حل نہیں کر سکے تو ہمیں آگے جانا پڑے گا۔ جنرل کیانی نے تو بارش میں ہیلی کاپٹر لے کر بندے عدالت میں پیش کئے۔ انہوں نے عدالت کا احترام کیا آپ کیوں نہیں کر رہے۔ جو سات لوگ ملے ہیں ان کے ہی نام بتا دیں۔ لاپتہ افراد کے نام نہیں بتا سکتے تو ان کے نام بتانے والوں کے ہی نام بتا دیں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ فوج ان لوگوں کو ٹریس کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے عدالت کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہے۔ عرفان قادر نے کہا کہ آئی جی ایف سی مصروفیت کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی ایف سی کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ کاپی سیکرٹری داخلہ کو بھیجی جائے تاکہ فورسز کو مطلع کیا جا سکے۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو آئندہ سماعت پر آئی جی کو پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ آئی جی پیش نہ ہوئے تو فرد جرم عائد کی جائے گی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت سے ان کیمرہ بریفنگ کی استدعا کی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد پیش نہیں کئے جا سکتے تو ان کیمرہ بریفنگ کی اجازت بھی نہیں ملے گی۔ وزیر دفاع نے کہا کہ لاپتہ افراد کو پیش کرنا چاہتے ہیں مگر اس میں وقت لگے گا۔ معلومات حساس ہیں سب کے سامنے پیش نہیں کی جا سکتیں۔ پانچ سے زائد افراد کا سراغ لگا لیا ہے تاہم یہ حتمی بیان نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تیس افراد کی بازیابی چاہتے ہیں اور آپ پانچ افراد کی بات کر رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے نام خفیہ لفافے میں دے دیں۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر میجر جنرل اعجاز شاہد کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے لیکن عدالت نے یہ کہہ کر ان کا وکالت نامہ مسترد کر دیا کہ اس پر ان کے مؤکل کے دستخط نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی ایف سی خود پیش ہوں اور عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے کی وضاحت کریں۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ سے کہا ہے کہ انھیں اس سلسلے میں نوٹس بھیجا جائے، ریاست ان کی پیشی کو یقینی بنائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عدالت میں پیش ہونے سے کسی ادارے کا حوصلہ پست نہیں ہو سکتا۔ عدالت کو نیچا دکھانے کی روش برداشت نہیں کی جائے گی۔ عدالت نے آئی جی ایف سی کو پیش نہ ہونے پر آئین کے آرٹیکل 204 سب سیکشن سی کے تحت توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ تین دفعہ طلب کرنے کے باوجود آئی جی ایف سی عدالت میں پیش نہیں ہوئے آئی جی ایف سی کو کراچی میں بھی طلب کیا گیا تھا تاہم وہ پیش نہیں ہوئے آئی جی ایف سی کو عدالت میں پیش ہوئے بغیر کوئی سہولت نہیں دی جا سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا تین مرتبہ آئی جی ایف سی کو طلب کیا تھا لیکن وہ نہیں پیش ہوئے۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر آئی جی ایف سی کی عدالت میں حاضری کو یقینی بنائیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ آئی جی ایف سی عدالت میں پیش ہونے کے پابند ہیں۔ لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے لاپتہ افراد کو پیش کرنے کیلئے مزید مہلت مانگ لی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت کو بتایا کہ فوج کہتی ہے کہ لاپتہ افراد ان کے پاس نہیں۔ ہمارے پاس بھی نہیں ہیں، تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پھر کریمنل کیس بن سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا جس نے آپ کو دو افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی اس کا نام ہی بتا دیں آپ کو بلانے کا مقصد معاملہ نمٹانے کا تھا۔ اگر آپ بے بس ہیں تو کسی اور کو بلا لیتے ہیں۔ وزیر دفاع لاپتہ افراد پیش نہیں کر سکتے تو ہم اوپر تک جائیں گے۔ چیف جسٹس نے وزیر دفاع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب لگتا ہے آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ عدالت کا احترام ہر شخص پر لازم ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ کیا مذاق کر رہے ہیں۔ پرسوں آپ نے کہا کہ نام دے رہے ہیں آج کہہ رہے کہ ہمارے پاس نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج بندے لے آئیں ورنہ کسی اور کو بلا لیں گے، عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سارا میڈیا یہاں موجود ہے اور دیکھ رہا ہے کہ عدلیہ کی کس طرح بے توقیری کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے وزیر دفاع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب! آپ ہمارے صبر کو نہ آزمائیں۔ حکومت کے متوازی حکومت چل رہی ہے۔ قبل ازیں وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت کو بتایا کہ 5 سے 7 افراد کا پتہ چلا ہے، معلومات حساس ہیں۔ سب کے سامنے معلومات کا تبادلہ نہیں کر سکتے۔ ان کیمرہ بریفنگ کی اجازت دی جائے، ہم کیس میں تاخیر نہیں کرنا چاہتے، لاپتہ افراد کو تلاش کرنے میں وقت لگے گا۔ چیف جسٹس نے کہا آپ جہاں تک جانا چاہتے ہیں، ہم جانے کو تیار ہیں۔ اٹارنی جنرل صاحب، کیا آپ نے سیکرٹری دفاع کی ہٹ دھرمی دیکھی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت فیکٹ فائنڈنگ کمشن بنا دے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم سے بھی باتیں چھپائی جا رہی ہیں۔ ہر کوئی ملک کا خیر خواہ ہے، ہم کوئی دشمن نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ان کیمرہ سماعت کرے۔ عدالت ان کیمرہ سماعت کے لئے تیار ہو گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 30 افراد کو پیش کریں، ان کیمرہ سماعت کے لئے تیار ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام افراد کا پتہ نہیں چل سکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا وقار کم نہیں ہونے دیں گے۔ آپ کو آدھا گھنٹہ مزید دیتے ہیں۔ صلاح مشورہ کر لیں۔ کیس کی سماعت آدھے گھنٹے کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی ایف سی کو عدالت میں پیش ہوئے بغیر کوئی سہولت نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے 3 مرتبہ آئی جی ایف سی کو عدالت میں بلایا مگر وہ نہ آئے۔ آئی جی ایف سی عدالتی حکم ماننے کے پابند ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ آسمان ٹوٹے یا زمین پھٹے لاپتہ افراد کو پیش کرنا پڑے گا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کو بتا دیں کہ معاملہ کس نہچ پر پہنچ چکا ہے، ہمیں فیصلہ دینے پر مجبور نہ کریں، پتہ نہیں ہم نے اپنے آپ کو کیسے روک رکھا ہے، آج سارے لاپتہ افراد کو پیش کریں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کو وزیراعظم کا فون آ گیا جس پر وہ اٹھ کر کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کا مذاق اڑانا چھوڑ دیں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ہم کل 4، 5 لاپتہ افراد کو پیش کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کل پیش ہو سکتے ہیں تو آج کیوں نہیں، ہمیں سارے لاپتہ افراد آج لا کر دیں۔ وزیر دفاع نے عدالت کو تحریری یقین دہانی کرا دی۔ وزیر دفاع کے ذریعے وزیراعظم کی لاپتہ افراد کو پیش کرنے کی یقین دہانی پر سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت ایک روز کے لئے ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آخر کہاں تک مذاق برداشت کریں، ہمیں ہفتہ اتوار کو بھی بیٹھنا پڑا تو بیٹھیں گے لیکن ان لاپتہ افراد کی بازیابی تک کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ اللہ کی طرف سے ہماری اور سب کی آزمائش ہے ہم گھبرانے والے نہیں امتحان پر پورا اتریں گے، شواہد موجود ہیں کہ ریاستی عناصر ان لوگوں کی گمشدگی میں ملوث ہیں، یہ لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کو وزیراعظم نوازشریف کا فون آنے کے بعد عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی کہ لاپتہ افراد کو آج پیش کر دیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اچھی خبر دیں عدالت کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ رویہ دیکھیں کہ آئی جی ایف سی کہتے ہیں میرا مورال ڈاؤن ہوتا ہے میں عدالت میں نہیں آتا۔ لاپتہ افراد کی درجہ بندی کی اجازت نہیں دیں گے ہم نے خود کو حتمی حکم جاری کرنے سے جس طرح روکا ہوا ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ وزیراعظم کو بتا دیں یہ اہم معاملہ ہے باقی اجلاس چھوڑ کر اسے نمٹائیں اگر عدلیہ کی عزت نہیں رہے گی تو کیا ہم نے مٹی گارے کا کام کرنا ہے، اس سے زیادہ ہم احتیاط نہیں کر سکتے، لگتا ہے کہ حکم جاری کرنا پڑے گا۔ ہمارے صبر کی آزمائش جاری ہے اگر یہ لوگ مجرم ہیں تو قانون کے مطابق کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔ بار بار کہہ رہے ہیں کہ تمام لوگوں کی بازیابی تک کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، لاپتہ افراد کو پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم تیاری کر کے بیٹھے ہیں، آخر تک جائیں گے۔ دن تھوڑے ہی سہی لیکن لاپتہ افراد کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس نے وزیراعظم کا فون آنے کے بعد کہا کہ اگر اس معاملے میں اب وزیراعظم بھی ملوث ہو گئے ہیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ وزیراعظم کا ایک اشارہ ہی کافی ہوتا ہے، اب بات وزیراعظم تک پہنچ چکی ہے وہ ریاست کے انتظامی سربراہ ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وزیر دفاع سربراہ حکومت کو شرمندہ نہیں کریں گے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ لگتا ہے کہ حکومت سرپرائز دینا چاہتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اتنے سرپرائز دیکھ چکے ہیں کہ اب کوئی چیز سرپرائز نہیں لگتی ہم ان کی بات مان لیتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے بندے پھر بھی نہیں دینے۔ وزیر دفاع نے کہا ہم کچھ لوگ جمعہ کو پیش کر دیں گے لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ تمام لوگوں کو پیش کیا جائے ورنہ ہم آج ہی کوئی حکم جاری کر دیتے ہیں اس پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے تمام 30 لاپتہ افراد پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر حکومت بے بس ہے تو بتا دے ہم خود کام کر لیں گے معاملہ اتنا نہیں بگڑا ہم اسے ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔