”کھجل خراب“
کھجل خرابی ویسے تو پنجابی لفظ ہے مگر آج کا لکھاری اسے اردو زبان کے کالم کی زینت بناتے ہیں۔ کھجل خرابی اچھے معنوں میں نہیں آتا بلکہ کہتے ہیں کہ کسی شخص نے کچھ رقم دوسرے شخص کو ادھار دی جب رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا تو انکار کے چکر، وقت کی خواری، اخلاقیات کی بے قدری، طاقت اور ظلم کی زبردستی کے معاشرے کو غیر متوازن کردیا ہے۔ راقم نے بھی انصاف کے دروازے پر دستک دی، شرفاءکو اکٹھا کیا، پرے پنچایت تک پہنچے تو پنچایتیوں نے کہا کہ فلاں لکھاری سے رائے لی جائے۔ لکھاری دنیا کا ستایا ہوا انسان تھا۔ اس نے کسی پارٹی سے ٹکٹ کی درخواست کی مگر ٹکٹ نہ حاصل کرسکا۔ ٹکٹ نہ حاصل کرنے پر انگور کھٹے ہیں کے محاورے کو تھو کوڑا کہہ کر موصوف یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ نظام ہی ٹھیک نہیں۔ دوسری جانب ایک محب وطن شخص جس نے قوم اور ملک کیلئے بے غرض جدوجہد کرتے ہوئے دیانت داری سے معاشرے میںسدھار لانے کی کوشش کی اس کا مقصد زندگی تین عبارات پر مشتمل تھا۔ کسی نیک مقصد کیلئے کام کرنا عبادت ہے۔ زندہ رہنا امانت ہے اور جان دینا شہادت ہے۔ ایسا نیک انسان جو ہو بھی ”خاتون“ اور نیک اس کی انتھک کوشش کو کہا جائے ”چھڈو مٹی پاﺅ“ اینے تے ساری زندگی کھجل خرابی کیتی اے سنواریا کجھ نئیں۔ دوسروں کی خوشامد کی ہے اور بے قدری کے لائق ہے۔ معاشرے میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو کسی کا تعریفی کالم لکھتے ہوئے لفافے کی صورت میں قیمت وصول کرتے ہیں۔ سچ کو جھوٹ کا لبادہ پہناتے ہیں۔ یوں ایک مہذب رشوت کا بیج بوتے ہیں۔ تھانہ کلچر کو صرف تحریری حد تک برا کہتے ہیں مگر خود ایس پی اور ایس ایچ او کی خوشامد کرتے ہوئے انکے دفتروں میں بیٹھے پائے جاتے ہیں۔ وقت کے وزیراعظم سے نیک اور معصوم بن کر پلاٹ کی صورت میں مراعات حاصل کرتے ہیں اور کبھی کبھی فری حج بھی کرلیتے ہیں۔ وقت کا حاکم اگر کوئی ایسی مراعات نہ دے تو حسد اور بغض کی سیڑھی چڑھ جاتے ہیں اور ایسی ایسی تحریریں لکھ دیتے ہیں جس سے نیک انسان کی شہرت کا مذاق بن جاتا ہے۔ علامہ اقبال کے شاہین کی پرواز بلندیوں کا زمینی نظارہ کرتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ جب ہمارے دوست، بزرگ رشتے دار دنیائے فانی سے کوچ کر جاتے ہیں تو ان کی قبروں پر مٹی ڈال دی جاتی ہے تاکہ اعمال کا حساب کتاب بندے اور اللہ میں رہے، یوں مرنے والے کے نیک اور برے اعمال کی جزا اور سزا کا حساب روز محشر تک ہوتا رہتا ہے۔ دنیا میں کارکردگی اچھی نہ ہو تو دنیا والے کہتے ہیں ”چھڈو جی مٹی پاﺅ“ ۔
سال کے آخر میں ترقیاتی کاموں کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو فائلیں مٹی اور کوڑے کے ڈھیروں میں دفن ہو جاتی ہیں۔ الماریوں میں دیمک لگ جاتی ہے۔ لکھنے والے کا قلم زنگ آلود ہو جاتا ہے اور وہ برائی کو برائی اور اچھائی کو اچھائی نہیں لکھتا بلکہ اپنی عینک سے اپنی عادت اور اپنے مزاج سے بندوں کی پرکھا کرتا ہے۔ سیاسی نمائندوں کی کارکردگی بددیانتی کے سبق نہ یاد کرے اور احتساب کرنے والے اینٹی کرپشن کے اداروں میں ٹھیکیداروں کی سفارشات کرتے ہوئے دخل انداز نہ ہوں تو کاموں پر مٹی نہیں پڑتی۔ دوسری طرف دو نمبر کے کام کو پاس کرواتے ہوئے کہا جاتا ہے ”چھڈو جی مٹی پاﺅ“ بل منظور کرو۔ بڑے بڑے قوم کے مجرموں کو یہ کہہ کر چھڑوا لیا جاتا ہے ”چھڈو جی مٹی پاﺅ“ صلح صفائی نال ایئرپورٹ توں کلیئرنس کروا دیو۔ ایسے غیر منصفانہ نظام میں مٹی پاﺅ کا لفظ بے حد مقبول ہوتا ہے اور مک مکا کی ڈکشنری بھی کھل جاتی ہے۔ ایسے غیر منصفانہ نظام میں کوئی نیک شخص قوم، ملک کے غریب لوگوں کیلئے جدوجہد کرے تو کہا جاتا ہے کہ ساری عمر کھجل خرابی میں گزار دی۔ بے ایمانی کی عمارت تیار کرنے والے ہمیشہ اپنے ذاتی گھروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور اعلیٰ عہدوں سے اپنی اولاد کیلئے نوکریاں حاصل کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کچھ دیر کیلئے تو زندہ رہتے ہیں لیکن تاریخ میں یہ دنیائے ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ میں اپنے حصے کا سچ لکھتی اور بولتی ہوں دوسروں کی کردار کشی کرنا میرا شیوا نہیں ہے۔ اہل علم، علم و دانش بن کر فاروق انصاری نے خاتون کی جدوجہد کو کھجل خرابی اور خوشامدی کہہ کر پروقار راستے پر گامزن رہنے والی خاتون کی جدوجہد جو امریتا پریتم سے شروع ہوتی ہے اور ر ۔ب۔ح خاتون پہلی کالم نگار پیسہ اخبار کی ترجمانی کرتے ہوئے رابعہ کاری جیسے محنت کش ایک مٹھ آٹا کی آواز دینے والی پھپی صالحہ کی بچیوں کیلئے تعلیمی کوششوں کو رائیگاں بنا دیا جبکہ گوجرانوالہ کی خاتون لکھاری نے سچائی کا راستہ اپنایا۔ دیانت داری کی عینک پہنی اور کوشش کی سیڑھی کو مسلسل سنبھالے رکھا۔فاروق انصاری جیسے کالم نگار جو دل سے کسی کی تعریف نہیں کرسکتے وہ خاتون کی جدوجہد کو کیا جانتے ہیں بلکہ انہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے ایسے پہلوﺅں کو اجاگر کرنا تھا جس سے اگلی نسل کی پڑھی لکھی بچیاں یہ آواز بلند کرتیں۔ ہم پاکستانی ہیں اس ملک کی مٹی کیلئے محنت کے پسینے کو ان زروں میں جذب کرنا ہے تاکہ غیار دشمن کی نظر ملک کی سلامتی پر نہ پڑ سکے۔ شاہین آج بھی ملک کی سلامتی کیلئے جدوجہد کرتی ہے کل بھی کرے گی بغیر محسوس کئے کہ چھوٹے چھوٹے لوگ کیا کہتے ہیں۔
”موج پریشاں خاطر نے پیغام لب ساحل کو دیا
دور و وصال ابھی تو دریا میں گھبرا بھی گئی“