جسٹس افتخار نے جوڈیشل ایکٹوازم کو بنیادی حقوق کی فراہمی، کرپشن کے خاتمے کیلئے استعمال کیا
لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدلیہ کا آٹھ سالہ دور 11 دسمبر کو ختم ہو جائے گا۔ جس کو عدلیہ رول ماڈل، وکلا آئین و قانون کی بالادستی، عوام ریلیف اور امید کی کرن، غیر ملکی کمپنیاں میرٹ کے نفاذ جبکہ سیاستدان اور انتظامیہ تکلیف دہ دور کے طور پر یاد رکھیں گے۔ جسٹس افتخار نے جوڈیشل ایکٹوازم کے نظریئے پر عمل کرتے ہوئے بنیادی حقوق کی فراہمی،عوامی استحصال کے خاتمے اور کرپشن و لاقانونیت کے احتساب کو یقینی بنا کر ایک طرف عدلیہ پر ماضی میں لگے دھبوں کو بہت حد تک دھو ڈالا جبکہ دوسری طرف عدلیہ کو بطور ادارہ اس حد تک مضبوط کر دیا تاکہ اس دور میں قائم کی گئی نظیروں اور روایات کو برقرار رکھا جا سکے۔ مسٹر جسٹس افتخار نے 1990ء میں بلوچستان ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج، 1993ء میں مستقل جج اور 1997ء میں بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ ذمہ داریاں سنبھالیں۔ سپریم کورٹ میں 2000ء میں بطور جج اور 2005ء میں چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔ چیف جسٹس کی حثیت سے ان کا 2005ء سے 2007ء تک روائتی جج کا دور تھا مگر 2007ء میں سابق آمر پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ اور پھر وکلا تحریک کے نتیجے میں عدلیہ کی بحالی نے ان کو مکمل تبدیل کر دیا۔ چیف جسٹس نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جوڈیشل ایکٹوازم کے عالمی نظریئے کو بنیادی حقوق کی فراہمی اور کرپشن کے خاتمے کیلئے بھرپور استعمال کیا۔ اس نظریئے کو جسٹس لارڈ نینگ نے برطانیہ، جسٹس ارل ویریسن نے امریکہ اور جسٹس پی این بھاگودی نے بھارت میں انہی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ چیف جسٹس کے از خود نوٹسز اور حکومتی شخصیات و بیوروکریسی کے خلاف فیصلوں نے عدلیہ پر عوام کے اعتماد میں اس حد تک اضافہ کر دیا کہ سپریم کورٹ بھجوائی جانے والی عوامی درخواستوں کی تعداد 4 ہزار سے بڑھ کر 50 ہزار سالانہ تک جا پہنچی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ بار کیس کے فیصلے کو لینڈ مارک تصور کیا جاتا ہے جس میں کسی بھی ادارے کی اقتدار کیلئے غیر قانونی مداخلت پر پابندی لگا دی گئی۔ عدلیہ کی تاریخ میں اس سے پہلے صرف 1972ء میں جسٹس حمود الرحمن نے اس نوعیت کا فیصلہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ سینکڑوں مقدمات، رٹ درخواستوں اور ازخود نوٹسز پر اعلیٰ حکومتی اور انتظامی شخصیات کے خلاف ایسے فیصلے دیئے گئے جن کی پاکستان کی عدالتی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کو نیویارک سٹی بار کی اعزازی ممبر شپ، ہارورڈ لاء سکول کی طرف سے میڈل آف فریڈم، انٹرنیشنل جیورسٹ ایوارڈ اور سندھ ہائی کورٹ بار کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ این آر او عملدرآمد کیس، وزیراعظم توہین عدالت کیس، این آئی ایل سی کیس، ایل پی جی کیس، صوابدیدی فنڈز کیس، سٹیل مل کیس، اصغر خان کیس سمیت درجنوں مقدمات کے فیصلے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بنچوں نے سنائے۔ انہوں نے ملک ریاض کے ساتھ اپنے بیٹے ارسلان افتخار کے معاملے پر بھی ازخود نوٹس لیا۔ جس کو سپریم کورٹ کے بنچ نے عوامی نوعیت کی بجائے دو افراد کے درمیان لین دین کا معاملہ قرار دے کر نمٹا دیا۔ اگرچہ چیف جسٹس کی طرف سے لئے گئے ازخود نوٹسز پر تنقید بھی کی گی مگر غیر جانبدار اور غیر سیاسی ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں اس اختیار کو اتنی مضبوطی سے استعمال کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی۔