امریکہ نے بینظیر کو سکیورٹی کیلئے بلیک واٹر کی خدمات کا مشورہ دیا‘ مشرف نہیں مانے: ہیرالڈو مونیز
نیو یارک (ثناء نیوز) ایک نئی کتاب نے پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے پیچھے سیکورٹی کی حیران کن ناکامی، ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی روایت اور معاملے کو چھپانے جیسے مفروضوں کو پھر زندہ کر دیا ہے۔چلی کے سفیر اور ان دنوں اقوام متحدہ میں نائب سیکرٹری جنرل ہیرالڈو مونیز کی کتاب 'گیٹنگ آوے وتھ مرڈر' اگلے ہفتہ امریکہ میں فروخت کے لیے پیش ہونے جا رہی ہے۔خیال رہے کہ مونیز کی سربراہی میں اقوام متحدہ کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے اس ہائی پروفائل قتل پر 2010 میں ایک سخت رپورٹ مرتب کی تھی۔اس رپورٹ میں کہا گیا کہ بینظیر بھٹو کو قتل سے بچایا جا سکتا تھا اور پاکستان جان بوجھ کر اس قتل کی مناسب تحقیقات میں ناکام رہا۔ مونیز نے اپنی کتاب میں لکھا کہ کس طرح ایک سابق وزیر داخلہ انہیں سوالات کے سیدھے جواب دینے سے بچتے رہے۔نیو یارک میں کتاب کی تقریب رونمائی میں جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انہیں تحقیقات کے دوران کبھی اپنی زندگی کو خطرہ محسوس ہوا تو مونیز کا کہنا تھا کہ نہیں۔تاہم انہوں نے انکشاف کیا کہ جنوری 2010میں ایک موقع پر وہ اپنی سیکورٹی بڑھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔انہوں نے تقریب میں موجود حاضرین کو بتایا مجھے ایک انتہائی بااعتماد ذریعہ نے خبردار کیا تھا کہ 'یہ لوگ' کچھ بھی کر گزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے انہیں دنیا کی پروا نہیں ہوتی۔مجھے کبھی بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ 'وہ لوگ' کون تھے، لیکن شاید ہم نے 'ان لوگوں' کے پاؤں پر اپنا پاؤں رکھ دیا تھا۔مونیز کے مطابق بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث لوگوں کی مثال سترہویں صدی کے ایک ہسپانوی ڈرامے جیسی ہے جس میں پورا گاؤں مل کر ایک کمانڈر کو ہلاک کرنے کی سازش کرتا ہے۔القاعدہ انہیں مارنا چاہتی تھی، پاکستانی طالبان نے ممکنہ طور پر کچھ انٹیلی جنس ایجنٹوں کی مدد سے حملہ کیا جبکہ مقامی پولیس نے واقعہ کو چھپایا۔مونیز کے مطابق بینظیر بھٹو کی ذاتی سیکورٹی نے بھی انہیں مایوس کیا اور سابق وزیر اعظم کو پاکستان آنے کی حوصلہ افزائی کرنے والے انہیں تحفظ دینے میں ناکام رہے۔ایک مرحلے پر امریکہ نے بینظیر بھٹو کو ماضی میں بلیک واٹر کے نام سے کام کرنے والے نجی سیکورٹی ادارے بلیک واٹر کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا، تاہم مشرف نے غیر ملکی ایجنٹوں کے پاکستان آنے کے امکان کو مسترد کر دیا۔مونیز کے مطابق پولیس اس واقعہ کے محرکات پر پردہ پوشی کی بڑی ذمہ دار تھی اور انہیں یقین ہے کہ پولیس نے ایسا 'بڑوں' کے کہنے پر کیا۔ مونیز کے مطابق ایسا سوچنا ہی مضحکہ خیز ہو گا کہ بینظیربھٹو کے شوہر اور سابق صدر آصف علی زرداری اس قتل میں کسی طرح ملوث تھے۔وہ بہت مددگار تھے تاہم میں ان کی حکومت کے بارے میں ایسا نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہمیں اپنی تحقیقات میں ہر طرح کی رکاوٹوں کا سامنا رہا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزیر داخلہ اور بینظیر کے سیکورٹی چیف رحمان ملک واقعہ کے وقت ایک بیک اپ بلٹ پروف مرسیڈیز میں تھے، تاہم حملے کے بعد وہ کہیں بھی نظر نہیں آئے۔صاف کہوں تو شاید وہ اپنی جان بچانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور ہمیں کبھی بھی ان سے سیدھے جوابات نہیں ملے۔ان کا کہنا تھا کہ مجرموں کا تعین عدالتوں کا کام ہے لیکن مشرف خطرات میں گھری سابق وزیر اعظم کو مناسب سیکورٹی فراہم نہ کرنے کے 'سیاسی طور پر ذمہ دار ہیں۔