موجودہ دور میں مزید 90 افراد لاپتہ ہوئے، عمران بھی ذمہ دار ہیں: آمنہ مسعود
اسلام آباد (نامہ نگار) لاپتہ افراد کے ورثاء نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ریٹائرمنٹ سے قبل تمام لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کریں، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لیا جائے، ورثاء نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سپریم کورٹ کی کوششوں کو سراہا ہے۔ لاپتہ نوید بٹ کے ورثاء نے چیف جسٹس سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ نوید بٹ گیارہ مئی 2012ء کو لاہور سے لاپتہ کئے گئے اور تاحال کوئی پتہ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نوید بٹ پڑھا لکھا آدمی ہے جس کا دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں، انکے دیگر ساتھیوں کو بھی غائب کیا گیا تھا لیکن عدالتی حکم پر بازیاب ہوئے۔ یہ ثابت ہوا کہ انکا کوئی قصور نہیں تھا۔ پاکستان ڈاکٹرز فورم نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ ایک ماہ قبل لاپتہ ہونے والے پمز کے ڈاکٹر ماہر امراض جلد احسان اللہ کو پمز ہسپتال سے گھر جاتے ہوئے اغوا کیا گیا، وہ انتہائی شریف النفس انسان ہیں کسی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث نہیں، انکی گمشدگی سے ڈاکٹروں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدم بازیابی کی صورت میں ڈاکٹر اسلام آباد میں جلد احتجاج کا سلسلہ شروع کرینگے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کی تنظیم ڈی ایچ آر نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ صرف 35 نہیں بلکہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے، لاپتہ افراد کی بازیابی تک جدوجہد جاری رہے گی، اگر کسی کا کوئی قصور ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا ہے کہ نواز شریف کے دور حکومت میں بھی لوگوں کو غائب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین جلد ڈی چوک میں بھوک ہڑتال شروع کریں گے۔ مائیں اور بہنیں کفن لے کر اپنے معصوم بچوں کے ساتھ ڈی چوک پہنچ گئی ہیں۔ 2000ء سے زائد افراد لاپتہ 996 کے کوائف موجود ہیں۔ عمران خان بھی لاپتہ افراد کے مسئلے کے ذمہ دار ہیں کیونکہ خیبر پی کے میں لکی مروت حراستی مرکز میں 450 افراد کو رکھا گیا ہے جہاں 27 اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے جنازے اٹھ چکے ہیں۔ اسلام آباد میں احتجاجی کیمپ کے لیے انتظامیہ شامیانے لگانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ سینکڑوں افراد بشمول خواتین و بچوں نے گزشتہ روز سردی کے اس موسم میں کھلے آسمان کے نیچے رات بسر کی۔ سینکڑوں افراد احتجاج کے لیے ڈی چوک پہنچ گئے ہیں بچے بھی شامل ہیں کئی خواتین کے پاس چھ، ایک اور دو سال کی عمر کے بچے بھی ہیں ۔ یہ خواتین اپنے پیاروں کی بازیابی کی امید پر آئی ہیں اپنے ساتھ کفن لے کرآئی ہیں کہ مر جائیں گے مگر اپنے عزیزوں کی بازیابی تک واپس نہیں جائیں گے۔ وزیراعظم کیا ان مظلوم دکھی مائوں، بہنوں کے مرنے کا انتظار کریں گے، جلد بھوک ہڑتال شروع کر دیں گے میں خود ان خاندانوں کے ساتھ گزشتہ شب کھلے آسمان پہنچ ان کے ساتھ تھی۔ موجودہ دور حکومت میں 90 افراد کو اٹھائے جانے کا معاملہ ریکارڈ پر آ چکا ہے۔ عمران خان بھی ذمہ دار ہیں۔ عمران خان سوات، مالاکنڈ کے ریکارڈ پر آنے والے 20 لاپتہ افراد کے مقدمات کے حوالے سے صوبائی حکومت سے رابطہ کیوں نہیں کرتے۔ تمام حراستی مراکز، ختم کئے جائیں۔ عدالتی دبائو پر سات افراد پیش ہو چکے ہیں، باقی کا کیا بنے گا۔ عدالت کی وجہ سے مظلوم خاندانوں میں ایک بار پھر امید کی نئی کرن پیدا ہو گئی ہے۔ لاپتہ افراد کو اذیت و عقوبت خانوں سے نکالا جائے۔ اطلاعات کے مطاق سکائوٹس قلعہ میں قید لاپتہ افراد کو 24 گھنٹوں میں صرف ایک بار دال روٹی دی جاتی ہے انہیں خوراک سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے حکومت بتائے کہ ٹاسک فورس کی سفارشات کا کیا بنا۔ سب کو انصاف دیا جائے۔ اب تک 600افراد بازیاب ہو چکے ہیں۔ آج جن افراد کو پیش کیا گیا تھا ان میں یٰسین شاہ نامی لاپتہ شخص شامل نہیں جس کی بنیاد پر یہ مقدمہ چلا تھا۔ سب کی پٹیشنز سپریم کورٹ میں دائر کریں گے لاپتہ افراد کے وکیل کرنل(ر) انعام الرحیم نے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے 26 نومبر کو جاری ہونے والے عدالتی احکامات پر اب بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔ وکلا ء کو عدالتی احکامات پر اب بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ عدالتی احکامات کو روندا جا رہا ہے اب بھی من مانیاں ہو رہی ہیں، وکلاء کو اٹھنا ہو گا۔