عذر گناہ بد تر از گناہ
الیکشن نگران حکومت نے کروائے مگر انگوٹھے نے موجودہ حکومت کی گردن دبوچ رکھی ہے۔وزیر داخلہ نے نادرا چیئر مین طارق ملک کی بر طرفی پر ایک نہیں ، کئی موقف اختیار کئے ہیں۔
وزیر داخلہ نے پارلیمانی جماعتوں کو جو خط لکھا ہے، اس کے نکات یہ ہیں۔
؎نادرا چیئر مین کی برطرفی کا تعلق انگوٹھوں کی تصدیق کے عمل سے نہیں ہے۔
الیکشن میں مقناطیسی سیاہی کسی بھی حلقے میں استعمال نہیں کی گئی۔الیکشن کروانے کی ذمے داری نگران حکومت کی تھی، اس لئے اس کے گناہوں کا بوجھ موجودہ حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا۔حکومت انگوٹھوں کی تصدیق سے گریز نہیں کر رہی، چند حلقوں کے بجائے حکومت تمام حلقوں کی جانچ پڑتال کے لئے تیار ہے۔اس سلسلے میں کسی بھی محکمے کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں، ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین بھی اس کے لئے موزوں ہیں۔حکومت اس مسئلے پر پارلیمانی جماعتوں کو بریفنگ دینے کے لئے تیار ہے۔
ان نکات کا مطلب کیا سمجھ میں آیا۔یہی نا کہ لوگ یہ بھول جائیں کہ نادرا چیئر مین کو لاہور کی کسی میٹنگ میں ڈرایا دھمکایا گیا، ان کے حرف انکار پر آدھی رات کے بعد وزیر اعظم ہائوس کھولا گیا اور نادرا چیئر مین کی برطرفی کے احکامات ہنگامی طور پر ٹائپ کر کے رات کے دو بجے ان کے اسلام آباد کے گھر میں ان کی بیٹی کوتھمانے کی کوشش کی گئی۔چلئے یہ مسئلہ حل ہوا مگر معاف کیجئے حل نہیں ہوا، حکمران پارٹی کے حامی کالم نگاروں، عرفان صدیقی اور عطا الحق قاسمی نے بھی حکومت کو اس مہم جوئی سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔کسی ذی شعور نے حکومت کے مڈنائٹ جیکال آپریشن کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔اور ہر طرف سے حکومتی ایکشن اور پھرتی پر تنقید کی گئی۔یہ کہنا چاہئے کہ پوری قوم کا اس پر اتفاق رائے سامنے آیا اور حکومت کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے اور وضاحتیں پیش کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ میںنے کہا تھا کہ یہ پاکستان کا واٹر گیٹ اسکینڈل ہے، جوں جوں حکومت اس کی پردہ پوشی کرے گی، توں توں اس اسکینڈل کی گرہیں کھلتی چلی جائیں گی۔اور یہی ہو رہاہے،۔
وزیر داخلہ مانتے ہیں کہ نگران حکومت کی کارکردگی کی ذمے داری موجودہ حکومت پر عائد نہیں ہوتی، اور یہ ٹھیک بات ہے تو پھر حکومت کو انگوٹھوں کی تصدیق کے عمل پر لیت و لعل کیوں ہے۔وہ کیوں بہانے تراش رہی ہے کہ کسی بھی حلقے میں مقناطیسی سیاہی استعمال نہیں کی گئی، یہ بہانے تو نگران حکومت کو پیش کرنا چاہئیں تھے اور اس کا وبال اسی کی گردن پر پڑنا چاہیے۔موجودہ حکومت اس پر حساسیت کا مظاہرہ کیوں کر رہی ہے۔نادرا سے تصدیقی عمل نہ کرانے کا جواز کیا ہے، نادرا کے علاوہ کسی دوسرے محکمے سے تصدیق کی ہامی کیوں بھری جا رہی ہے، نادرا میں کیا نقص ہے۔اور جسٹس وجیہہ الدین کا نام کیوں پیش کیا جارہا ہے، وہ بہت صاف ستھرے کردار کے انسان ہو سکتے ہیں لیکن ٹیکنالوجی سے ان کا کیا واسطہ۔ ایسے ہی ایک شخص کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا، ان کی ذات میں کیڑے ن لیگ کے حامیوںنے ڈالے تھے ۔ جناب چیف الیکشن کمشنر کی نظر کا معیار یہ تھا کہ وہ ملک کے آرمی چیف جنرل کیانی کو نہ پہچان سکے۔ جو شخص اپنے ملک کے جرنیل کوپہچاننے سے قاصر تھا ، وہ اصلی اور جعلی ووٹر کی شاخت کیسے کر سکتا تھا، بہتر یہ ہے کہ فخرو بھائی جان کو ان کے عہدے پرواپس بٹھایاجائے اور الیکشن پر اٹھنے والے سوالوں کے لئے جوابدہ بنایا جائے۔مجھے یہاں ایک بار پھر شیخ الا سلام یاد آتے ہیں جنہوںنے الیکشن کمیشن کی تشکیل پر اعتراض کیا تھا اور پورے انتخابی عمل کی تطہیر کا مطالبہ کیا تھا۔قوم نے ان کی ایک نہیں سنی اور آج ایک اندھے موڑ سے سر ٹکرا رہی ہے۔شیخ الا سلام اس مرحلے پر ایک بار پھر وارد ہونے والے ہیں اور وزیر داخلہ کو صرف پارلیمانی جماعتوں کو ہی نہیں ، سڑکوں پر ابلنے والے ایک کروڑ انسانوں کے ہجوم کو بھی مطمئن کرنا ہوگا۔پارلیمانی جماعتیں تو پہلے ہی الیکشن کا نتیجہ قبول کئے بیٹھی ہیں ، انہیں اپنی اپنی حکومت اور اپنا مفاد عزیز ہے۔عمران خان نے الیکشن دھاندلی پر اسٹینڈ لیا مگر جلد ہی وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئے، وہ سیاستدان نہیں تھے۔ظاہر ہے کوئی بھی بائولر اپنی اسپیڈ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ دوسرے انہیں ڈرون کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ اس سے فارغ نہیں ہو پائے تھے کہ انہیں پاک ہند دوستی کا ایجنڈہ عزیز از جاں ہو گیا۔خوبصورت اور پر کشش ہونے کا اعزازکترینہ کیف کو ملا تھا مگر آنکھیں عمران خان کی خیرہ ہو گئیں۔نادرا چیئر مین کا معاملہ عدالت میں ہے اور حکومت نے اپنے احکامات کے خلاف حکم امتناعی کے اخراج کے لئے دعوی دائر کر دیا ہے، اس پر عدالت کا فیصلہ تو آئے گا ہی مگر ایک عدالت عوام اور تاریخ کی بھی ہے جس کا سامنا حکومت کو ہمیشہ کرنا پڑے گا، مجھے شیکسپیئر کا ڈرامہ یاد آ رہاہے۔ جس میںلیڈی میکبتھ کہتی ہے کہ ملک عرب کی ساری خوشبوئیں میرے ہاتھوں پر لگے خون کی بو نہیں مٹا سکتیں۔اور یہاں تو ایک قوم کے مینڈیٹ کے خون کی بات ہے، کیا یہ خون ہوا یا نہیں، اس کا علم عوام کو ہونا چاہئے، وہ جاننا چاہتے ہیںکہ کیا ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا یا نہیں۔الیکشن کی رات میں ایک چینل پر لائیو کمنٹری کر رہا تھا، آدھی رات نہیں ہو پائی تھی کہ میاںنواز شریف نے وکٹری تقریر فرما دی، اس وقت کے تمام چینلز کی فلمیں دوبارہ دیکھ لیجئے ،پورے ملک سے کسی بھی چینل پر چھ سات فیصد سے زیادہ نتائج نہیں آئے تھے اوراگلے روز شام تک امیدواروں کو مصدقہ نتائج کی نقول بھی فراہم نہیں کی گئیں، الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر مکمل نتیجہ کب ڈیکلیئر ہوا، اس کے ڈیجیٹل دستخط بھی کمپیوٹرز میں ہونے چاہئیں۔سوال یہ ہے کہ وہ کونسا خلائی الیکشن تھا جس کا نتیجہ رات کے بارہ بجے میاں نواز شریف کو فراہم کر دیا گیا تھا۔مگر پوری قوم اس سے لا علم تھی۔ شک کی بنیاد یہی ایک لمحہ تھا۔
ہو سکتا ہے الیکشن بہت صاف ستھرا، شفاف، غیر جانبدارانہ، منصفانہ ہوا ہو ، مگر ایساثابت کرنا بے حد ضروری ہے۔اگر کسی نے دھاندلی نہیں کی تو چیئر مین نادرا طارق ملک کے ہوتے ہوئے تحقیقات میں کیا قباحت ہے۔اور میں اتنا بتا دوں کہ نادرا کا نظام اس قدر شفاف اور فول پروف ہے کہ سینکڑوں طارق ملک نادرا سے نکال بھی دیئے جائیں تو یہ نظام جھوٹ نہیں بول سکتا مگر طارق ملک کو نکالاکیوں جائے۔ نکلے وہ جس نے دھاندلی سے سیٹ جیتی ہے۔ملک میں ایک بار پہلے بھی الیکشن دھاندلی کا شور مچا تھا۔ یہ بھٹو کا دور تھا، الیکشن اسی کی نگرانی میں ہوئے تھے، اب تو نگران حکومت الیکشن کرواتی ہے۔ قوم نے بھٹو کو معاف نہیں کیا، اس کی حکومت بھی گئی اور افسوس یہ ہے کہ جان بھی گئی۔ایک اور الیکشن کا نتیجہ قبول نہیں کیا گیا، یہ یحییٰ خاںنے کروایا اور ملک دو لخت ہو گیا۔آج ہم ایسے کسی نتیجے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ براہ کرم حکومت، عذر گناہ بد تر از گناہ کی روش اختیار نہ کرے۔