• news

عدل انصاف کیلئے فیصل آباد کا افتخار

فیصل آباد… احمد کمال نظامی  ...
 مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 30جون 2005 کو جب چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدہ کاحلف اٹھایاتھا تو اس ملک کے عوامی وسیاسی حلقوں کیلئے یہ ایک معمول کی تبدیلی تھی۔ کسی کو بھی گماں تک نہیں تھا کہ سپریم کورٹ کی سربراہی کاتاج سر پرسجانے والے مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری’’ کس شیر کی آمد ہے کہ رَن کانپ رہاہے…‘‘ کے مصداق پاکستان کے اس منصب ِجلیلہ پر فائز ہو رہے ہیں۔ ان کے ساڑھے آٹھ سالہ عہد میں سپریم کورٹ کے فیصلوں سے ایک ایسی تاریخ رقم ہوچکی ہے کہ ملک کے مقتدر حلقوں کیلئے ان کی اپنے عہدہ سے رخصت ایک ’’یوم نجات‘‘ جبکہ اس ملک کے 18کروڑ عوام کیلئے ان کی ریٹائرمنٹ ایک بہت بڑے مسیحا سے محرومی کے مترادف سمجھی جا رہی ہے۔مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری کو جب جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیاتھا انہوںنے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ شخص ان کے زوال اور ملک میں جمہوریت کے نئے طلوع آفتاب کاباعث بن جائے گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ملک کے پہلے چیف جسٹس تھے جنہوںنے سیاسی جلسوں سے خطاب کئے بغیر پاپولر سیاست دانوں سے بھی کہیں زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے اپنے فیصلوں سے اس ملک کی انتہائی رشک آفرین تاریخ رقم کی۔ سپریم کورٹ میں بیٹھ کر نہایت اہم مقدمات کے فیصلے کرتے ہوئے جسٹس افتخار محمد چوہدری جو بھی ریمارکس دیتے رہے ، ان مقدمات کے فیصلوں کا حصہ بنے ہوں یا نہ بنے ہوں‘ اخبارات کی شہ سرخیاں بنتے رہے۔ ان کے ریمارکس بھی ہنگامہ خیز ہوتے تھے اور ان کے فیصلے بھی انتہائی جرات مندانہ سمجھے جاتے رہے۔ ماضی کے ایک چیف جسٹس مسٹر جسٹس محمدمنیر نے جن کاتقرر29جون 1954کو اس وقت کے سربراہ مملکت مسٹر غلام محمد گورنر جنرل پاکستان کے ہاتھوں ہوا تھا۔ انہوںنے اکتوبر1958کے جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے نفاذ کوآئینی و عدالتی تحفظ دے کر ملک کی اعلیٰ عدالتوںکے فیصلوں میں پہلی مرتبہ نظریہ ضرورت کوداخل کرکے جس طرح ملک کی سب سے بڑی عدالت کی توقیری کی تھی ‘ اس نظریہ ضرورت کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے9مارچ 2007ء کوآرمی ہائوس میں آمر وقت جنرل پرویز مشرف اور ان کے مختلف ساتھی جرنیلوں کے سامنے اپنے ایک حرف انکار سے ختم کردیا۔ ان سے آرمی ہائوس میں بلا کر اس بات کی یقین دہانی چاہی گئی کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف کی وردی سمیت آئندہ صدارتی الیکشن کے امیدوار کے طورپر اہل قرار دے دیں گے۔ ان کی طرف سے انکار کیاگیا تو ان کو مستعفی ہوجانے کیلئے دبائو ڈالاگیا۔انہوںنے اس دبائو کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا تو انہیں’’چیف جسٹس ہائوس‘‘ میںنظر بندکردیاگیا۔ ماسوائے سابق آرمی چیف جنرل پرویز کیانی جو اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے‘ باقی باوردی جرنیلوں نے اس روز ان کے ساتھ بدتمیزی تک روا رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ان کے عہدہ پربحالی کیلئے چلنے والی وکلاء تحریک ہی جنرل پرویز مشرف کے زوال کاباعث بنی۔ انہیں سپریم کورٹ کے تیرہ رکنی بنچ کے فیصلے کے مطابق ‘ چیف جسٹس کے عہدہ پربحال کردیاگیا۔انہوںنے جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں ہونے والے اس فیصلے کے مطابق یہ منصب سنبھال بھی لیاتھا، لیکن جنرل پرویز مشرف کو وہ چیف جسٹس پاکستان کی حیثیت سے کھٹکتے رہے ۔ لہذاانہوںنے 3نومبر 2007کو ملک میں ایک مرتبہ پھر ایمرجنسی نافذ کرنے کے ساتھ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کیلئے دوسری مرتبہ پی سی او نافذ کرکے‘ جبراً ان ججوں کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا اعلان کیا۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کی تعداد ‘ حلف اٹھانے سے انکار کرنے والوں سے کہیں زیادہ کم تھی تاہم سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر موسٹ جج مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر چیف جسٹس کے طورپر تقرری قبول کرلی۔ انہوںنے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دورانیہ میں سے پی سی او کے تحت چرائے گئے ان کے منصب کو نظریہ ضرورت کے تحت استعمال کیا۔ مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف کی وردی میں صدر مملکت کے الیکشن کیلئے امیدوار کے طورپر اہل قرار دیا ۔ ڈوگر عدالت سے این آر او کیلئے بھی آئینی تحفظ جاری کیا گیا، لیکن 16مارچ 2009 کو با لآخر اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کیلئے چلائی گئی وکلاء تحریک کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدالتوں کے تمام جج اپنے عہدوں پربحال ہوگئے۔ اس طرح جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے منصب سے معطلی کے دو مختلف ادوار میں 640دن اپنے عہدہ سے الگ رہے۔ مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی چیف جسٹس پاکستان کے طورپرتقرری اور اس حیثیت سے ان کے دور کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق ڈی فیکٹو قرار دے دیاگیا ہے۔ لہذا عملی طورپرجسٹس افتخار محمد چوہدری چھ سال ‘ آٹھ ماہ اور بارہ دن چیف جسٹس آف پاکستان رہنے کے باوجود آئینی طورپر 30جون 2005سے گیارہ دسمبر 2013تک ملک کے چیف جسٹس رہے ہیں۔ بعض سیاسی اور عوامی حلقو ں کی طرف سے یہ نکتہ اٹھایا جاتا رہا ہے کہ موجودہ حکومت جس نے18فروری2008کاالیکشن اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے نعرے پرلڑا تھا اور وزیراعظم میاں محمد نوازشریف جنہوں نے اپنی پارٹی کے سربراہ کے طورپر 15مارچ 2009کو لاہور سے گوجرانوالہ تک وکلاء کی طرف سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کیلئے چلنے والی تحریک کی قیادت کی تھی‘ وہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ہونے والی زیادتی کاازالہ کریں ۔ اس کیلئے چیف جسٹس شپ کے جبری طورپر غیر فعال 640دنوں تک کیلئے ان کی مدت ملازمت میں توسیع دینا ہو گی۔ 12دسمبر 2013کا روز جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ان کے منصب سے ریٹائرمنٹ کاپہلا دن ہوگا ۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ پرملک کے دوسرے شہروں کی طرح فیصل آباد میں بھی‘ عوامی و سیاسی حلقوں کی طرف سے یہ محسوس کیاجارہاہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان سے چھینے گئے 640دنوں تک کیلئے ملازمت میں توسیع ملنی چاہئے تھی۔ گزشتہ روز ایک تقریب کے دوران پنجاب کے ایک صوبائی وزیر نے پنجاب حکومت کے نمائندہ کی حیثیت سے اعتراف کیاہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے ملک کے باوردی آمر کے سامنے جھکنے سے انکار کرکے عدلیہ کاوقار بلند کیاہے اور اپنے از خود نوٹس مقدمات کے ذریعے ملک کے غریب عوام اور مظلوم افراد کوہمیشہ ریلیف دیاہے ۔ انہوںنے اپنی پارٹی کے حلقوں میں ان سے کئے گئے ایک استفسار کے جواب میں تسلیم کیاہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریٹائر ہونے سے حکمرانوں کو بہت سے معاملات میں ریلیف ملاہے۔ فیصل آباد کے وکلاء کو اس بات کا بھی افسوس ہے کہ وہ فیصل آباد کے سپوت ہونے کے باوجود‘ ملک کے تیسرے بڑے شہر کے لوگوں کو گھر کی دہلیز پرانصاف دینے کیلئے اس شہر میں عدالت عالیہ لاہور کابینچ قائم کرنے میں بروقت کردار ادا نہیں کرسکے۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے ان کی چیف جسٹس کے عہدہ سے معذولی کے دونوںادوار میں ایک ایک مرتبہ فیصل آباد میں وکلاء کنونشن منعقد کئے ۔ دونوں مرتبہ فیصل آباد میں ان کا والہانہ استقبال کیاگیا۔ان کو سرآنکھوں پر بٹھایاگیا۔ دو مرتبہ انہوںنے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن فیصل آباد کے ارکان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ فیصل آباد میں عدالت عالیہ کے بنچ کے قیام کوجائز سمجھتے ہیں۔ اگر سندھ ہائی کورٹ حیدر آباد‘ لاڑکانہ اور سکھر میں ہائی کورٹ کے بنچ قائم کرسکتی ہے اور صوبہ خیبر پی کے میں پشاور ہائی کورٹ‘ ایبٹ آباد ‘ مردان اور ڈی آئی خان میں ہائی کورٹ بنچوں کا قیام عمل میں لاسکتی ہے تو فیصل آباد میں عدالت عالیہ لاہور کے بنچ کا قیام عمل میں لایاجانے میں کوئی امر مانع نہیں تھا۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن فیصل آباد کے نمائندہ متعدد بار ‘ سپریم کورٹ میں جا کر بھی سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس پاکستان سے ملتے اور فیصل آباد میں عدالت عالیہ لاہور کے بنچ کے قیام کامطالبہ کرتے رہے۔ صوبائی انتظامیہ نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن فیصل آباد کے اس مطالبہ کو پنجاب کے دوسرے ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں عدالت عالیہ کے بنچوں کے قیام کی منظوری کے ساتھ نتھی کرکے‘ چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کیلئے اس سلسلہ میں اپنے کردار کومثبت انداز میں اداکرنامشکل کردیاتھا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے آبائو اجداد ‘ چک مزارع تھا نہ ٹھیکری والا سے تعلق رکھتے تھے اس وجہ سے بھی فیصل آباد کے وکلاء چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے عدلیہ کی آزادی اور اسے نظریہ ضرورت کے حصار سے نکالنے کیلئے ان کے ولولہ انگیز کردار کی وجہ سے ان کے مداح بھی ہیں اور انہیں اہلیان شہر کیلئے باعث افتخار بھی سمجھتے ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چیف جسٹس پاکستان کی حیثیت سے ملک کو رشوت کی لعنت سے نجات دلانے اور ملک میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کیلئے نہایت مثبت اور اہم کردار اداکیاہے۔ اس وقت ملک میں بہت انتہائی اہم عہدے خالی ہیں جن میں چیف الیکشن کمشنر کا منصب بھی شامل ہے ۔ جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری ملک اور قوم کی خدمت کیلئے چیئرمین نیب بن کر بھی ملک کوکرپشن مافیا سے نجات دلاسکتے ہیں، لیکن موجودہ حالات میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے اس قسم کی پیشکش پر آمادگی کی توقع ایک مشکل کام ہے۔

ای پیپر-دی نیشن