مسلم ایشیا کے عظیم صوفی شیخ الاسلام حضرت غوث بہاءالدین زکریاؒ
مسلم ایشیا کے عظیم صوفی شیخ الاسلام حضرت غوث بہاءالدین زکریاؒ
ڈاکٹر غضنفر مہدی
شیخ الاسلام حضرت بہاو¿الدین زکریا ملتانی برصغیر پاک وہند کے ایک عظیم مبلغ تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ تبلیغی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا، آپ علم و عرفان اور تقویٰ و اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ آپ نے کفر و شرک میں مبتلا انسانیت کو توحید کا درس دیا، غافل مسلمانوں کو یادِ الٰہی کا سبق پڑھایا اور محبت سے محروم دلوں کو اللہ اور رسول اور ان کی آل کی محبت سے معمور کر دیا۔ آپ نے ایک منفرد تبلیغی نظام قائم کر کے اشاعتِ اسلام کے لئے جو خدمت سرانجام دیں وہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں رقم کی گئیں۔ آپ کی قائم کردہ درس گاہ نے علماءاور مبلغین تیار کئے اور آپ نے اپنی ذاتی دولت کو اللہ کے دین کی اشاعت کے لئے وقف کر دیا۔ آپ کے خلفاءاور اولاد نے آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فریضہ تبلیغ دین بطریقِ احسن ادا کیا۔ اس کا اعتراف مسلم مورخین کے علاوہ غیر متعصب غیر مسلم قلمکاروں نے بھی کیا ہے ان کا منہج دعوت آج کے مبلغین کے لئے بھی لائق تقلید ہے۔
شیخ الاسلام حضرت غوث بہاءالدین زکریاؒ کی اس علاقے میں جو خدمات ہیں انہیں اس مختصر سی تحریر میں ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ علم روحانیہ اور فیوض باطنیہ میں بہت بلند مقام عطا فرمایا تھا۔ آپ نے ہزاروں لوگوں کو دولت اسلام عطا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اخلاقی تعلیم و تربیت بھی فرمائی۔ آپ کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہندوستان میں دعوت و ارشاد کے طریقے کی بالعموم اور سلسلہ سہروردیہ کی بالخصوص بنیاد رکھی۔ آپ کی خدمات کے بعض پہلو ایسے ہیں جو آپ کو دوسرے صوفیائے کرام سے ممتاز کرتے ہیں اور جن پر عصر حاضر میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
شیخ الاسلام حضرت غوث بہاءالدین زکریاؒ ملتان قدس سرہ العزیز کی ولادت باسعادت کے متعلق مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے ”سفیة الاولیائ” اور ”آئین اکبری“ میں ولادت کا سال 565 ہجری تحریر ہے۔ ”اخبار سہروردیہ“ بروایت خزیة الاصفیاءاور تاریخ فرشتہ 578 ہجری میں بمقام کوٹ کروڑ ضلع مظفر گڑھ لکھا ہے۔ حسب و نسب کے لحاظ سے حضرت شیخ مکہ معظمہ کے قریشی الاسد قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت کے جد امجد حضرت شیخ کمال الدین علی شاہ نے مکہ معظمہ سے نکل کر خوارزم میں سکونت اختیار کی ملتان کو اپنا وطن بنایا یہاں حضرت کمال الدین علی شاہ کے صاحبزادے حضرت مولانا وجیہ الدین محمد کی شادی حضرت مولانا حسام الدین ترمذی کی دختر نیک سیرت بی بی فاطمہ سے ہوئی۔ مولانا بہت بڑے اخلاق کے مالک تھے ان کا علم و دانش اپنے ہم عصروں میں نمایاں تھا۔ موصوف تار تاریوں کے خروج کے باعث جلاوطن ہو کر سلطان محمود غزنوی کے مفتوحہ علاقہ ملتان میں آ بسے تھے۔ بی بی فاطمہ کے بطن مبارک سے حضرت شیخ کی پیدائش ہوئی۔ صاحب انورِ غوثیہ قلمی خلاصة العارفین کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ حضرت کے والد ایک کامل ولی تھے اور اکثر سیروسیاحت کرتے رہتے تھے جب آپ شہر ہامہ میں تشریف لے گئے تو وہاں کے شیخ حضرت عیسیٰؒ نے جو حضرت غوث الاعظم پیران پیر میراں محی الدین سید عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد میں سے تھے اپنی دختر نیک سیرت فاطمہ کا نکاح ان کے ساتھ کر دیا۔ وہ کچھ عرصہ وہاں رہ کر کوٹ کروڑ میں تشریف لے آئے اور یہیں شیخ الاسلام حضرت غوث بہاءالدین زکریا ملتانیؒ کی ولادت باسعادت ہوئی۔
تعلیم و تربیت:
آپ کی تعلیم و تربیت بہت چھوٹی عمر میں شروع ہوئی کہا جاتا ہے کہ جب آپ کے والد محترم کلام پاک کی تلاوت کرتے تو آپ دودھ چھوڑ کر نہایت توجہ سے سنتے تھے۔ یہ عالم دیکھ کر آپ کے گھر والے حیران رہ جاتے۔ آپ کے سنجیدہ اطوار نے بچپن کے ساتھیوں میں بھی آپ کو نمایاں کر دیا تھا۔ آپ جب مکتب میں پڑھتے تھے تو آپ نے کسی کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ”حق تبارک و تعالیٰ نے جب الست بربکم (ترجمہ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں فرمایا تھا اس وقت سے اب تک کے واقعات مجھے اس طرح معلوم ہیں جیسے میری آنکھوں کے سامنے ہوئے ہیں۔“ آپ صرف سات سال کی عمر میں ساتوں قرا¿ت کے ساتھ کلام اللہ شریف حفظ کر کے قاری مشہور ہو گئے تھے جب آپ کی عمر بارہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد محترم کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا لیکن آپ کی تعلیم بدستور جاری رہی۔ آپ کی رسا طبعیت اور خداداد ذہن کا یہ عالم تھا کہ ایک بار جو چیز نظر سے گزر جاتی وہ محفوظ ہو جاتی آپ نے تحصیل علم کے شوق سے سیاحت بھی کی والد محترم کی وفات کے بعد آپ نے ملتان سے خراسان کا سفر کیا۔ وہاں پہنچ کر سات سال تک بزرگان دین سے علم حاصل کیا اور اس قدر کمال حاصل کیا کہ درجہ اجتہاد کو پہنچ گئے۔ مجاہدے، مشاہدے اور مکاشفے میں بہت زیادہ مشق کی۔ آپ کے اوصاف دل موہ لینے والے اور عادتیں لوگوں کو گرویدہ کر لینے والی تھیں جس کی وجہ سے اہل بخارا آپ کو بہاو¿الدین فرشتہ کہتے تھے جلد ہی آپ کی شہرت خراسان اور بخارا کے گردونواح سے بھی آگے پہنچ گئی۔
بخارا میں آٹھ سال تک تحصیل علم کے بعد آپ حج کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور معمولات حج سے فارغ ہو کر حضور رحمت عالم کے روضہ اقدس کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ پہنچے پانچ سال تک حضور کے روضہ اقدس کی زیارت سے شرف یاب ہوتے رہے اور روضہ اقدس کے مجاور بنے رہے اسی مدت میں حضرت مولانا شیخ کمال الدین محمد یمنی سے جو اپنے دور کے جلیل القدر محدث تھے اور جنہوں نے پچھلے تریپن سال تک روضہ اقدس نبی اکرم کی مجاوری کی تھی حدیث پڑھی پھر تزکیہ قلب اور تصفیہ باطن کے مجاہدے میں شدت اختیار کی مگر جلد ہی حضور رحمت عالم سے اجازت حاصل کر کے بیت المقدس تشریف لائے اور کرامات عالی اور مقامات بلند کے حصول کے بعد بغداد تشریف لے گئے۔ بغداد میں حضرت پیران پیر اور دیگر اولیاءاللہ کے روضوں کی زیارت کے بعد عمر سہروردیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صرف سترہ روز کے قیام میں حضرت شیخ الشیوخ نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا۔
614ءھ میں آپ دوبارہ ملتان تشریف لائے اس وقت آپ کی عمر چھتیس یا سینتیس سال تھی اہل ملتان کی اس درخواست پر آپ نے تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کر دیا اور ملتان کی حالت علمی ظاہری و باطنی بدل کر رکھ دی۔ ہر طرف مسجدیں تیار ہونے لگیں مدرسے تعمیر ہونے لگے، لنگر خانے بنائے گئے شہر میں بڑی بڑی اور صاف ستھری عمارتیں تعمیر ہونے لگیں اور ملتان کی رونق بڑھنے لگی۔ ملتان کا وہ مدرسہ جس کے آپ مہتمم تھے آہستہ آہستہ اسلام کی مرکزی یونیورسٹی بن گیا جس میں تمام دینی اور دنیوی علوم و فنون اور معقولات کی تعلیم دی جاتی تھی اور اس یونیورسٹی میں ملتان کے گردونواح کے علاوہ ہندوستان کے اکثر و بیشتر شہروں سے طلباءتعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے۔ جب درس گاہ کی شہرت زیادہ بڑھی تو عراق و شام اور حجاز تک طلباءتعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے لگے۔ اس مدرسے میں تعلیم بالکل مفت دی جاتی تھی خوراک و لباس اور رہائش کا معقول انتظام تھا حتیٰ کہ تعلیمی ضروریات کی چیزیں مثلاً قلم، دوات کاغذ، کتابیں وغیرہ بھی طلباءمیں مفت تقسیم ہوتی تھیں مدرسین اعلیٰ معیار کے ہوتے تھے طلباءکے علاوہ بڑے بڑے جید علماءبھی آپ کے عقیدت مند تھے۔ علوم الٰہیہ کی ایک علیحدہ خانقاہ تھی جس میں ہندوستان کے علاوہ چین، ترکمانستان، مصر، بغداد اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی جو حق کی تلاش میں تھے آپ سے فیض یاب ہوتے تھے ان دنوں آپ کے گرد ہر وقت طالبان حق کا ایک مجمع لگا رہتا تھا عقیدت مندوں کی فہرست کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ حضرت شیخ بہاو¿الدین زکریاملتانی کی خانقاہ میں بڑے بڑے اولیاءاللہ نے قیام فرمایا ہے۔ مثلاً حضرت خواجہ غریب نوازؒ ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت حمید الدین ناگوری، جلال الدین تبریزی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ وہ باکمال اولیاءاللہ ہیں جن کے توسل سے دعا بارگاہ رب العزت میں مقبول ہوتی ہے۔
حضرت شیخ بہاو¿الدین زکریا ملتانی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ رشتے میں خالہ زاد بھائی تھے اور آپس میں گہری محبت رکھتے تھے۔ دونوں حضرات کئی سال تک سفر حضر میں اکٹھے رہے اور دونوں ایک دوسرے کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ ان کی صحبت میں رنج و ملال کا وہم وگمان بھی نہ ہو سکتا تھا۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ فرماتے ہیں ”ایک مرتبہ مجلس میں زہد و تقویٰ کی گفتگو ہو رہی تھی حضرت برادرم بہاو¿الدین زکریا اور میں یکجا بیٹھے ہوئے تھے۔ برادرم بہاو¿الدین زکریاؒ نے فرمایا کہ زہد تین چیزوں پر موقوف ہے جس میں یہ تینوں باتیں نہیں وہ زاہد کہلانے کا مستحق نہیں اول دنیا کو پہچاننا اور اس سے مایوس نہیں ہونا، دوسرے اولاد کی خدمت کرنا اور اس کے حقوق کی نگہداشت کرنا، تیسرے آخرت کی طلب اور اس کے حصول میں لگا تار کوشاں رہنا اور اللہ کی رحمت پر بھروسہ رکھنا“
حضرت شیخ کا وصال:
آپ کے سال وصال میں مورخین کا اختلاف ہے ”تذکرہ علمائے ہند“ میں سال وصال 661 ءہجری تحریر ہے راحت القلوب میں 656 ہجری تاریخ فرشتہ میں 666 ہجری اور مراة الاسرار میں 665 ہجری۔ فرشتہ کے سوا تمام مورخین نے 7 صفر روز پنجشنبہ آپ کا یوم وصال قرار دیا ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءمحبوب الٰہی سے روایت ہے کہ آپ وفات کے روز اپنے حجرے میں یاد الٰہی میں مصروف تھے آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ صدر الدین عارف دروازے پر تشریف لائے اور ایک سربمہر لفافہ حضرت شیخ صدر الدین عارف کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا کہ یہ خط حضرت شیخ الاسلام بہاو¿الدین کی خدمت میں پہنچا دو۔ حضرت شیخ صدر الدین خط کو لیتے ہی پہچان گئے اور حیرت زدہ ہو گئے حکم ربی میں کیا چارہ ہو سکتا تھے والد بزرگوار کی خدمت میں لفافہ پیش کر کے واپس تشریف لائے تو دیکھا وہ بزرگ غائب تھے حضرت شیخ زکریا ملتانی نے وہ لفافہ کھولا اور اس کو پڑھتے ہی جاں بحق ہوگئے۔ ایک آواز بلند ہوئی کہ ”وصل الحبیب الی الحبیب“ ترجمہ ”حبیب حبیب سے مل گیا“ حضرت شیخ صدر الدین آواز سنتے ہی حجرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ آواز حقیقت بن چکی ہے اور حضرت شیخ بہاو¿الدین زکریا فردوس بریں کو سدھار چکے ہیں۔
سن ولادت 596 ھ کے اعتبار سے آپ کی عمر شریف سو ساس کے قریب ہوئی۔ آپ کا مزار شریف ملتان میں مرجع خلائق ہے جہاں آج بھی دن رات آپ کے مزار پر انوار الٰہی کی بارش ہوتی ہے کہتے ہیں کہ حضرت شیخ نے اپنا مقبرہ خود تعمیر کروایا تھا جو برصغیر میں اس دور کا بہترین نمونہ تھا۔ اس مقبرے میں آپ کے صاحبزادے کے علاوہ دیگر افراد خاندان کے مزارات بھی ہیں۔ جہاں آج بھی اہل محبت جا کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور مزارات کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ راحت القلوب میں لکھا ہے جس وقت حضرت شیخ بہاو¿الدین زکریا ملتانی کا وصال ہوا اسی وقت اجودھن میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ بے ہوش گئے۔ حضرت بابا صاحبؒ کو بہت دیر بعد ہوش آیا جب مریدوں نے حال دریافت کیا تو حضرت بابا نے فرمایا ”برادرم بہاو¿الدین زکریا را ازیں بیابان فنا بہ شہر خموشاں بقا بردند“ اور اٹھ کر مریدوں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھی۔