ملتان میں پہلی اقامتی یونیورسٹی کا قیام
ملتان میں پہلی اقامتی یونیورسٹی کا قیام
فتح محمد ملک
اِن دنوں غوث بہاءالدین زکریا کے عُرس کی تقریبات اپنے عروج پر ہیں۔ ایسے میں جی چاہتا ہے کہ گردشِ ایام پیچھے کی طرف دوڑنے لگیں اور یوں ہمیں تیرہویں صدی عیسوی کے ملتان کی ایک جھلک دیکھنے کی سعادت نصیب ہو سکے اور ہم اپنے ماضی کی زندہ روایات کی روشنی میں اپنے حال اور مستقبل کو سنوارنے کا اہتمام کر سکیں۔حضرت بہاءالدین زکریا کے گونا گوں کمالات میں سے ایک کمال ملتان میں پہلی اقامتی یونیورسٹی کا قیام ہے۔ اِس Residential University طالب علموں کو فیضانِ نظر بھی میسر تھا اور مکتب کی کرامت بھی۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ:
از کلیدِ دیں ، درِ دُنیا کشاد
دین کی کنجی سے دُنیا کا دروازہ کھولنے کا یہ مسلک اِس یونیورسٹی کے نظامِ تعلیم و تربیت کی بنیاد تھا۔ غوث بہاءالدین زکریا نے اِس دانشگاہ کے نصابِ تعلیم و تربیت میں روحانی اور مادی علوم کو یکجان کر دیا تھا۔ دین و تصوف کے ساتھ ساتھ کاروبار و تجارت سے لے کر فنونِ حرب تک پڑھائے جاتے تھے۔ اِس حلقہ¿ ارادت میں شامل درویش سامانِ تجارت کے ساتھ ساتھ روحانی سوغات لے کر ہندچینی کے دُور دراز ممالک سے لے کر چین تک آیا جایا کرتے اور یوں اپنے مثالی فکر و عمل سے لوگوں کو دائرہ¿ اسلام میں کھینچ لایا کرتے تھے۔ یوں حضرت بہاءالدین زکریا نے کارِدین اور کارِ دُنیا کو باہم دگر آمیز کر دیا تھا۔ جہاں روحانی سرگرمیاں مادی زندگی کے اَن گنت شعبوں کو نورµ علیٰ نور کر دیتی تھیں وہاں مادی زندگی کی تگ و دو روحانی مسلک کو سرسبز و شاداب رکھتی تھی۔ یہ نصاب ِ تعلیم سے زیادہ حضرت بہاءالدین زکریا کا فیضانِ نظر تھا جس کی کشش دُنیائے اسلام کے کونے کونے سے متلاشیانِ حق و صداقت کو ملتان کھینچ لایا کرتی تھیں۔ وقت کی کمی کے پیشِ نظر میں یہاں اِس کی فقط ایک مثال پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ یہ مثال شہرہ¿ آفاق شاعر‘ مفکر اور صوفی فخر الدین عراقی کی مثال ہے جن کی تصنیف ”لمعات“ کا ترجمہ حال ہی میں Divine Flashesکے عنوان سے نیویارک میںشائع ہوا ہے۔
فخرالدین عراقی کا گزر قلندروں کے ایک کارواں کے ساتھ ملتان سے ہوا۔ جب یہ قلندر حضرت بہاءالدین زکریا کی دست بوسی کی خاطر اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت بہاءالدین زکریا نے عراقی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے قریب تشریف فرما عماد الدین سے فرمایا کہ اِس نوجوان کی تربیت کامل ہے۔ عراقی حضرت زکریا کی بارگاہ میں پہنچ کر بہت بے چین ہوا۔اُس نے قلندروں سے کہا کہ جلد اُٹھو یہاں سے ، چلو چلو جلدی چلیں ۔ جس طرح مقناطیس لوہے کو اپنی جانب کھینچتا ہے شیخ کی نگاہیں مجھے اِسی طرح اپنی جانب کھینچ رہی ہیں۔ ہمیں جلد یہاں سے نکلنا ہے ورنہ میں یہیں کا ہو رہوں گا۔ قلندروں کا کارواں فوراً اُٹھا اور اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ دہلی اور اُس کے گرد و نواح میں سرگرداں رہا لیکن فخرالدین عراقی کی بے چینی بڑھتی چلی گئی اور بالآخر اپنے کارواں سے کٹ کر ملتان آ پہنچا۔ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے سوال کیا : عراقی تو ہم سے کیوںفرار کر گیا تھا ؟ عراقی نے اِس سوال کا جواب اپنی ایک غزل کی صورت میں پیش کیا۔ اس پر حضرت زکریا نے اُسے ایک حجرے میں چالیس روز تک خلوت نشیں رہنے کا حکم دیا۔ عراقی خلوت نشیں تو ہو گیا مگر رات کو وہ انتہائی دردناک لَے میں اُونچے اُونچے اپنے شعر گانے لگا۔ اِس پر اُس کے ہمسایہ حجرہ نشینوں نے شکایت کی کہ عراقی ہمارے مسلک کے قواعد و ضوابط کو نظرانداز کر کے گاتا رہتا ہے۔ اِس پر حضرت زکریا نے فرمایا : جو چیز آپ کے لیے ناجائز ہے وہ عراقی کے لیے جائز ہے۔ چند دن بعد اِس طرح کی شکایات پہنچیں کہ عراقی جو اشعار گاتا ہے وہ ملتان کے کچھ بہت ہی بدنام محلے کی گانے والیاں گاتی پھرتی ہیں اور یوں یونیورسٹی کا وقار خطرے میں پڑتا جا رہا ہے۔ حضرت بہاءالدین زکریا نے عراقی کے کمرے کا دروازہ جا کھٹکھٹایا ۔ عراقی باہر نکلا اور زار و قطار روتے ہوئے حضرت کے قدموں پہ گر گیا۔ حضرت نے اُسے اُٹھا کے اپنے سینے کے ساتھ لگایا‘ اپنا چُغہ پہنایا اور اپنا داماد بنا لیا۔
فخر الدین عراقی پچیس برس تک ملتان کی اِس یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم و تربیت رہے۔ حضرت بہاءالدین زکریا نے اپنے دمِ واپسیں اُنہیں اپنا خلیفہ نامزد کر دیا تھا۔ عراقی کے ساتھی صوفیوں کے سینوں میں حسد کے جذبات پیدا ہوئے۔ اِس پر عراقی نے اپنی بیوی سے کہا کہ غوث بہاءالدین زکریا تو اب اِس دنیا میں نہیں رہے۔ہم یہاں کیا کر رہے ہیں آﺅ خلافت صدرالدین عارف کے سپرد کر کے ہم مختلف اسلامی ممالک سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ چلے جائیں۔ عراقی جس ملک سے بھی گزرے سلاطین و ملوک نے اُن کی بے مثال پذیرائی کی۔ بالآخر وہ قونیہ میں مولانا جلال الدین رومی کے ہم نفس بن گئے۔ ملتان کی اِس یونیورسٹی میں اُن کے روحانی اور تخلیقی جوہر کو اِس درجہ کمال تک پہنچایا تھا کہ پوری اسلامی دُنیا میں اُن کی شہرت اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ یہ فخرالدین عراقی ہی تھے جنہوں نے دمشق سے ابن العربی کی شہرہ¿ آفاق کتاب ”فتوحاتِ مکیہ“ کا ایک نسخہ اپنے برادرِ نسبتی صدرالدین عارف کو بھیجا تھا۔ فلسفہ¿ وحدت الوجود کا یہ شاہکار ملتان ہی سے برصغیر کے گوشے گوشے میں پہنچاتھا۔
ملتان کی اِس شہرہ¿ آفاق یونیورسٹی کے فقط ایک طالب علم کی مثال یہ جاننے کو کافی ہے کہ اِس یونیورسٹی میں مادی و روحانی علوم کی ترقی کن مراحل سے گزر کر کہاں جا پہنچی تھی؟ .... شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان میں غوث بہاءالدین زکریا کے نامِ نامی سے منسوب ایک جدید یونیورسٹی قائم کر دی تھی۔ اِس یونیورسٹی میں اسلامیات کے نام سے شریعت کی تعلیم کا شعبہ تو قائم ہے طریقت کے رسم و سلوک سے متعارف کرانے والا کوئی شعبہ موجود نہیں ہے۔ شعبہ قائم کر دیا جائے تو بھی پڑھائے گا کون؟
حضرت بہاءالدین زکریاؒ کو ہدیہ¿ عقیدت پیش کرتے وقت مجھے اُن کے رفیق حضرت بابا فرید گنج شکرؒ بے اختیار یاد آرہے ہیں۔ میری مشکل یہ ہے کہ میں تیرہویں صدی کے ان دو عظیم محسنینِ انسانیت کی یاد کو کبھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کر پایا۔ یہ بات مجھے بہت معنی خیز نظر آتی ہے کہ ایک ہی زمانے میں اور ایک ہی زمین پر سایہ فگن یہ دو برگزیدہ ہستیاں اپنے صوفیانہ طرزِ فکر و عمل میں حیرت انگیز تضاد کی حامل ہیں۔ ایک کے ہاں ایک درہم بچا کر رکھنا بھی غلط ہے اور دوسرے کے ہاں بقول میر: ’جن روزوں درویش ہوئے تھے پاس ہمارے دولت تھی‘ اور دولت بھی اس پیمانے پر کہ ملتان کے حکمران کو قحط سے نبٹنے کے لئے درویش کے آگے دستِ سوال دراز کرنا پڑا۔ ایک کے ہاںسلاطین و امرا سے روابط ناپسندیدہ ہیں تو دوسرا التمش کا شیخ الاسلام بن کر بھی درویشی پر قائم رہتا ہے۔ ایک کے ہاں ہر وقت ہر کوئی آ جا سکتا ہے تو دوسرے نے ملاقات کے اوقات مقرر کر رکھے ہیں۔ ایک کے ہاں عام لنگر جاری ہے تو دوسرے کے دستر خوان پر وہی بیٹھ سکتا ہے جسے مدعو کیاجائے۔ ایک کے ہاں عوام کو سرآنکھوں پر جگہ دی جا رہی ہے تو دوسرے کے نزدیک:”خلق کی دو قسمیں ہیں۔ عوام اور خواص۔ عوام سے مجھے غرض نہیں۔ خواص جب آتے ہیں اپنی استعداد کے مطابق فیض پاتے ہیںاور ذوق حاصل کرتے ہیں“ (مولانا نورالدین فریدی، ص۱۴۰) ۔کہاں تک گنواتا چلا جاﺅں۔ ان دو بزرگوں کے صوفیانہ مسلک میں اس حد تک تضاد ہے کہ ایک کے ہاں جو چیز خوب ہے دوسرے کے ہاں وہی چیز ناخوب ہے مگر اس کے باوجود دونوں میں معاصرانہ چشمک کی بجائے محبت اور اُخوت کا اٹوٹ رشتہ ہے ۔ ایک دوسرے کو برادرم کہہ کر پکارتے ہیں اورمحبت و یگانگت کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ سوچتا ہوں، طرزِ فکر و عمل میں اِس اختلاف کے باوجود دونوں کی یکدلی کا راز کیا ہے؟ ....شاید اس باطنی یگانگت اور ظاہری اختلاف کا راز تیرہویں صدی کے مخصوص حالات میں پوشیدہ ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ایبک کی وفات کے بعد سلطنت چھوٹے چھوٹے خود مختار صوبوں میں بٹ گئی ہے۔ قباچہ اور یلدیز کے سے کوتاہ اندیش، اقتدار پسند، سرحدوں پر منگولوں کی دستک سُننے کی بجائے آپس کی خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔ اقتدار کی اس مجنونانہ کشمکش میں سلطنت کا استحکام کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ ایسے میں حضرت بہاءالدین زکریا کو التمش ایک ایسی شخصیت نظر آتا ہے جو بکھرتی ہوئی سلطنت کی از سرِ نوشیرازہ بندی کر سکتا ہے۔ سلطنت کو سرحدی خطرات سے بچا کر اور اندرونی استحکام عطا کر کے، اسلام کے فروغ و بقا کا سامان کرسکتا ہے۔ سو، حضرت بہاءالدین زکریاؒ شیخ الاسلام بن کر سلاطین و امراءکو حامی¿ِ اسلام بنانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور یوں ان کے برادرِ عزیز فرید الدین گنج شکرؒ اطمینان سے بیٹھے عوام میں تبلیغِ اسلام کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ دو برگزیدہ ہستیاں ایک دوسرے کا تکمیلی جزو نظر آتی ہیں۔ ایک کے سپرد دارلاسلام کو بچانے کا کام ہے اور دوسرے نے دارلاسلام کی مضبوط سرحدوں کے اندر اسلام کی اشاعت کا فریضہ سنبھال رکھا ہے۔ دونوں اپنے اپنے صوفیانہ مسلک پر قائم رہتے ہوئے ایک ہی منزل پر پہنچتے ہیں۔ یہ منزل اسلام کے فروغ و اشاعت سے انسانیت کی سربلندی کی منزل ہے۔
یوں لگتا ہے کہ آج ہمیں پھر سے وہی چیلنج درپیش ہے جوتیرہویں صدی میں درپیش تھا۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور حکمران طبقے میںوہی مجنونانہ ہوسِ زرکارفرما ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ نہ کوئی بہاءالدین زکریاؒ ہے نہ کوئی بابا فرید گنج شکرؒ ۔ رواں صدی کے اوائل میں ہی اقبال نے اہل نظر کی ہم سے بیزاری کی سناونی سنا دی تھی۔جب میں اقبال کی نظم ”پنجاب کے پیرزادوں سے خطاب“ پڑھتا ہوں تو مجھے رہ رہ کر وہ زمانے یاد آتے ہیں جب اِن بزرگوں کے دم سے خاک پنجاب زندہ اور مرجع خلائق تھی اور میرے سینے میں یہ تمنّا کروٹ لینے لگتی ہے کہ کاش خدمتِ سرکار کے نشے میں سرمست مخلوق میں سے ایسے صوفیاءپیدا ہوں جو ناصر الدین قباچہ کے سے حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ سکیں کہ ہاں میں نے ہی تیرے خلاف یہ خط لکھا ہے اور خدا کے حکم سے لکھا ہے۔ بتا تو میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟
٭٭٭