چیف جسٹس تصدق دھیمے مزاج کے جج، مقدمات کو زیادہ طوالت نہیں دیتے
چیف جسٹس تصدق دھیمے مزاج کے جج، مقدمات کو زیادہ طوالت نہیں دیتے
اسلام آباد (نیٹ نیوز + بی بی سی) بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی دھیمے مزاج کے جج ہونے کے ساتھ ساتھ مقدمات کو زیادہ طوالت نہیں دیتے وہ فوری مقدمات کو نمٹا دیتے ہیں۔ ان کی اس صلاحیت کی وجہ سے سپریم کورٹ کی کوریج کرنے والے میڈیا کے ارکان کو اب شاید رات گئے تک سپریم کورٹ میں نہ بیٹھنا پڑے، جس طرح وہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں مقدمات کی کوریج کے لئے بیٹھا کرتے تھے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے انصاف سب کے لئے ایک نظم لکھی جو سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے کے ساتھ آویزاں کی گئی ہے۔ نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی 6 جولائی 1949ءکو ملتان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایف سی کالج سے ایم اے سیاسیات کیا اور اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے 1974ءمیں ملتان سے بطور وکیل پریکٹس کا آغاز کیا۔ وہ 1979ءمیں سابق فوجی آمر ضیاءالحق کے دور میں پنجاب کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل تعینات ہوئے۔ 1988ءمیں وہ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل تعینات کئے گئے۔ انہیں 1993ءمیں ترقی دے کر پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ دھیمے مزاج والے تصدق حسین جیلانی کو سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں سات اگست 1994ءمیں لاہور ہائیکورٹ کا جج اور قریباً دس سال کے بعد جولائی 2004ءمیں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں قائم ہونے والے اس بنچ کا حصہ تھے جس نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کی سماعت کی تھی۔ اس ریفرنس کا فیصلہ افتخار محمد چودھری کے حق میں دیا گیا تھا جس کے بعد وہ اپنے عہدے پر بحال ہو گئے تھے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی اس سات رکنی بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے 3 نومبر 2007ءمیں سابق فوجی صدر کی طرف سے لگائی جانے والی ایمرجنسی کے موقع پر حکم جاری کیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی جج پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھائے اور بیوروکریسی فوجی آمر کا کوئی حکم نہ مانے۔ نئے چیف جسٹس اس بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے 31 جولائی 2009ءمیں 3 نومبر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی ان ججوں میں شامل تھے جنہیں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ءمیں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد گھروں کو بھیج دیا تھا تاہم وہ مارچ 2009ءمیں عدلیہ کی بحالی کے لئے شروع کئے جانے والے لانگ مارچ کی وجہ سے چیف جسٹس سمیت بحال ہونے والے دیگر ججوں میں شامل نہیں تھے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی اور سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس ناصر الملک کو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے دور ہی میں دوبارہ حلف لینے کے بعد ان کے عہدوں پر بحال کر دیا گیا تھا۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی اس بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف فیصلہ دیا تھا، یہی فیصلہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے درمیان اختلافات کا باعث بنا۔ تصدق حسین جیلانی نے اس پانچ رکنی بنچ کی سربراہی کی تھی جس نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی حکومت کو بحال کیا تھا۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے سپریم کورٹ کے جج موسیٰ کے لغاری نے میاں شہباز شریف کو نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری نے پنجاب میں گورنر راج لگا کر حکومت ختم کر دی تھی اور اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو تمام انتظامی اختیارات سونپ دئیے گئے تھے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرف سے مختلف معاملات پر لئے جانے والے ازخود نوٹسوں کی سماعت کرنے والے بنچوں کا حصہ نہیں رہے۔ وہ سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات کی سماعت کرنے والے بنچ میں بھی شامل نہیں تھے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ کے قریبی رشتہ دار ہیں، اس کے علاوہ سابق سیکرٹری دفاع سلیم عباس جیلانی اور قومی اسمبلی میں ایڈیشنل سیکرٹری شاہد عباس جیلانی ان کے بھائی ہیں۔ امریکہ میں پاکستان کے نامزد سفیر جلیل عباس جیلانی نئے چیف جسٹس کے بھانجے ہیں۔
دھیمے مزاج