بلندو بانگ دعوے نہیں، عملی اقدام پر یقین رکھتا ہوں: پاکستان باسکٹ بال فیڈریشن کے سیکرٹری خالد بشیر کا انٹرویو
سپورٹس رپورٹر
پاکستان میں چند کھیل ایسے ہیں جن کو بہت جلد شہرت حاصل ہو جاتی ہے تاہم بعض کھیل ایسے بھی ہیں جن کی ترقی کے لیے برسوں محنت کرنا پڑتی ہے پھر بھی انہیں کوئی شہرت نہیں ملتی۔ باسکٹ بال کا کھیل امریکہ، کینیڈا، جاپان، کوریا، چین، فلپائن، آسٹریلیا، عرب امارات میں سب سے زیادہ جانا اور پہچانا جاتا تاہم پاکستان میں اس کھیل کی کوئی قدر و منزل نہیں ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی نظر میں اس کھیل کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ پاکستان باسکٹ بال میں خالد بشیر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے وہ انٹرنیشنل مقابلوں میں بھی پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ 1983ءمیں خالد بشیر پاکستان باسکٹ بال فیڈریشن کے ساتھ بطور سیکرٹری جنرل منسلک ہو گئے اور انہوں نے ملک بھر میں باسکٹ بال کا جال بچھانے کے لیے آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا انعقاد کرانا شروع کیا 1999ءتک یہ سلسلہ بہت اچھا چل رہا تھا کہ ملک میں لگنے والے مارشل لا نے دیگر کئی کھیلوں کے ساتھ پاکستان باسکٹ بال فیڈریشن پر ایڈہاک لگا دی گئی۔ اس وقت پاکستان میں باسکٹ بال کا کھیل کس سطح پر ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے اس حوالے سے خالد بشیر سے خصوصی نشست ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 14 سالوں میں پاکستان باسکٹ بال کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے جس کو واپس لانا بہت مشکل ہے، عدالت سے انصاف ملنے کے بعد ہم نے گراس روٹ لیول پر اس کھیل کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس دوران کسی بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں شرکت نہیں کی جائے گی۔ اگر ڈومیسٹک کی سطح پر ہم باسکٹ بال کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اگلے چار سے پانچ سال میں ہم ایسی ٹیم بنا لیں گے جو ایشیا لیول پر ملک کا نام روشن کر سکے گی۔ خالد بشیر نے 14 سال کی جدوجہد کے بعد پاکستان باسکٹ بال فیڈریشن کو اس کے اصل حقداروں میں واپس آئی ہے انشااﷲ اب پوری محنت کے ساتھ کام کرینگے تاکہ ایک مرتبہ پھر باسکٹ بال اپنے پاوں پر کھڑی ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ میں پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں ہے جبکہ 14 سال تک نام نہاد فیڈریشن نے اسے ایشیا کے لیول پر بھی ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے پنجاب، سندھ، خیبر پی کے اور کوئٹہ میں ہمارے پاس اچھے کھلاڑی موجود ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس کھیل میں اب نئے کھلاڑیوں کو لائیں یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب سکول اور کالج کی سطح پر باسکٹ بال شروع کی جائے گی۔ جلد فیڈریشن کے نو منتخب صدر کے ساتھ ملکر ایک لانگ ٹرم پلان دینے جا رہے ہیں جس کے مطابق ہر ڈویژن میں باسکٹ بال شروع ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب ایک مرتبہ پھر ایشیا میں پاکستان ٹیم اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کر لے گی تاہم اس کے لیے ابھی انتظار کرنا ہوگا۔ حکومتی سرپرستی ہر کھیل کے لیے ضروری ہوتی ہے اس میں سیاست اور پسند نا پسند کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ 14 سال پہلے ہمارا طریقہ کار تھا کہ ایک سال میں ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ ایونٹس کا انعقاد کیا جاتا تھا جس میں کھلاڑیوں کو پورے ملک میں کھیلنے کے مواقع میسر آتا تھا بد قسمتی سے گذشتہ کچھ عرصہ سے اس کھیل میں سیاست آ گئی جس کی بنا پر ملک میں باسکٹ بال کا کھیل ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ خالد بشیر کا کہنا تھا کہ میں بلند و بانگ دعوے نہیں کرونگا بلکہ اتنا ضرور کہوں گا کہ پہلے قومی سطح پر اس کھیل کو ترقی دی جائے گی بعض ازاں کوشش کرینگے کہ انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر کہا جاتا ہے جب تک کھلاڑی غیر ملکی ٹیموں سے نہیں کھیلیں گے تو ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا نہیں ہو گا اس سلسلہ میں ہم کوشش کرینگے کہ غیر ملکی کلبوں کو پاکستان لایا جائے اور یہاں اپنے کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل میچز مہیا کر سکیں۔ پاکستان میں کلب باسکٹ بال ختم ہو گئی ہے ہم اپنے دوستوں سے درخواست کرینگے کہ وہ اپنی کلبوں کو دوبارہ بحال کریں۔ پاکستان باسکٹ بال کا آئین جمہوری ہے ہم نے اپنے آئین میں رکھا ہے کہ ہر ڈویژن اپنی کلبوں کی چیمپیئن شپ کرائے گی جبکہ اس کے علاوہ جونیئر اور انڈر 18 لیول پر چیمپیئن شپ کرائی جائے۔ سیکرٹری پاکستان باسکٹ بال فیڈریشن کا کہنا تھا کہ کرکٹ، ہاکی کے مقابلے میں باسکٹ بال کا کھیل انتہائی سستا ہے۔ ہم نے بیرون ملک سے گیند منگوائے ہیں جو کلب اور ڈویژن نیشنل چیمپیئن شپ میں فاتح ہو گی اسے انعامی رقم کے ساتھ ساتھ پانچ بال بھی دیئے جائیں گے تاکہ وہ عالمی معیار کے بال کے ساتھ اپنی کلبوں اور ٹیموں کو پریکٹس کرا سکیں۔ خالد بشیر کا کہنا تھا کہ کھیل کوئی بھی ہو فنڈز کے بغیر اس کو چلانا ممکن نہیں ہے محدود وسائل میں رہ کر ہم اپنے کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ مقابلے فراہم کرینگے۔ ہزارہ، کوہاٹ، پشاور، سرگودھا، گوجرانوالہ، لاہور، کراچی، حیدر آباد اور کوئٹہ میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ ہمارا پہلا ٹارگٹ پلیئر تیار کرنا ہے جو اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب ہم زیادہ سے زیادہ مقابلوں کا اہتمام کرینگے۔ ان کا کہنا تھا کہ باسکٹ بال قوت کی گیم ہے ہمارے پاس موجود کھلاڑیوں کی فزیکل فٹنس ایسی نہیں ہے کہ ہم کہہ سکیں کہ ہماری کھلاڑی ورلڈ یا ایشیا لیول کے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے علاوہ پاکستان میں کسی جگہ باسکٹ بال کا انڈور جمنیزیم نہیں ہے۔ پاکستان سپورٹس بورڈ ہماری فیڈریشن کو جو سالانہ گرانٹ دیتا ہے اس سے ہم انٹرنیشنل میں ہم اپنی فیس بھی جمع نہیں کرا سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان باسکٹ بال کا مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ بنانے کا ارادہ ہے جس کے لیے ابتدائی کام کا آغاز کر دیا ہے۔ خالد بشیر کا کہنا تھا کہ ہم نے آئی او سی چارٹر کے تحت چلنا ہے وہ پاکستان میں جس نیشنل اولمپک کمیٹی کو مانتی ہوگی ہم اس کے ساتھ ہی چلیں گے۔