ناکامی کے بعد نجکاری
ناکامی کے بعد نجکاری
سرکاری اداروں PSEs کی نجکاری کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ ادارے حکومت کیلئے بوجھ ہیں ان اداروں کے خسارے میں چلنے کی بڑی وجوہ کرپشن بدعنوانی‘ بددیانتی‘ اور بدانتظامی ہے اہلیت گڈ گورننس اور دیانتداری ہوتی تو نفع بخش ادارے اپنی بقا اور سلامتی کیلئے بیل آﺅٹ پیکیج نہ مانگتے پاکستان پٹرولیم اور تیل اور گیس کی کارپوریشن جیسے ادارے 50 اور 91 ارب روپے سالانہ خالص منافع کما رہے ہیں پھر بھی ان اداروں کو نج کاری کی چھری تلے لٹایا جا رہا ہے۔
یورپی یونین کے ممالک میں فری مارکیٹ ہونے کے باوجود نجی شعبے کو مادر پدر آزادی حاصل نہیں دنیا کا کوئی ملک Strategic وسائل کیلئے دوسرے ملک کا محتاج نہیں ہے۔ ہم تھرکے ذخائر پر اور تیل اور گیس کے ذخائر پر اغیار کو بٹھا دیں گے تو یہ محتاجی نہیں تو اور کیا ہو گی۔ شریف حکومت کو امیر ملکوں کے سرمایہ کاروں یا عالمی مالیاتی اداروں کی بجائے 19 کروڑ عوام کے حقوق اور مفادات کو سامنے رکھنا چاہئے نج کاری کے بعد تیل اور گیس اور بجلی کی قیمتوں کو بڑھنے سے کوئی نہیں روسکے گا۔ 1997ءمیں نیپرا قائم ہوا۔ اسوقت سے پاور سیکٹر 400 ارب کھا رہا ہے۔ پچھلے سال تو 480 ارب گردشی قرضے ادا کرنے کے بعد بھی گردشی قرضے سر اٹھا رہے ہیں۔ 185 ارب کا قرضہ پھر واجب الادا ہے گذشتہ 145 دنوں میں حکومت 842 ارب کا قرضہ پھر واجب الادا ہے گذشتہ 145 دنوں میں حکومت 842 ارب روپے کے نوٹ چھاپ چکی ہے۔ FBR کبھی بھی اپنے اہداف پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اب بھی پہلی سہ ماہی میں 50 ارب کا شارٹ فال رہا ہے۔ چھ ارب یومیہ چھاپ کر یومیہ خرچے پورے کر رہی ہے۔ اسے اس بات کی مطلقاً پرواہ نہیں کہ افراط زر ساتویں آسمان سے بھی آگے جا رہا ہے۔ واپڈا اور پیپکو پیپکو کرپشن کے ڈینگی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بجلی اور گیس چوروں 2008ءسے اب تک بجلی کے نرخوں میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ شریف حکومت نے چھ ماہ میں بجلی کے نرخوں میں تین بار اضافہ کیا ہے۔ IPPs حکومت کے قابو سے باہر ہیں۔ بجلی اور گیس چوروں کے کارٹل ہیں‘ جیسے شوگر اور ٹیکسٹائل ملوں کے کارٹل ہیں 25 سے 35 فیصد بجلی دوران ترسیل چرا لی جاتی ہے یا سرکاری لفظوں میں لائنوں میں ضائع ہو جاتی ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ افواج پاکستان اور عدلیہ بھی قومی دارے میں کتنے نظم و ضبط سے چلتے ہیں ایسا ہی نظم و ضبط سرکاری اداروں کو نصیب کیوں نہیں ہوتا بدعنوانی کا عذاب ان پر مسلط رہتا ہے افسروں کو عالیشان گھر اور نئے ماڈل کی گاڑیاں درکار ہوتی ہیں آڈٹ رپورٹوں پر ہی عمل ہوتا تو PSEs کی نج کاری کی ضرورت نہیں پڑتی انرجی ریلویز اور پی آئی اے منافع بخش شعبے ہیں دنیا بھر کی کوئی بھی فضائی کمپنی اور ریلوے خسارے میں نہیں ہے۔ اسی طرح بجلی اور گیس کمپنیاں بھی منافع سے مالا مال ہیں۔ نجی شعبے میں ایک مٹھائی کی دکان اور بیکری سے دکانوں کی چین جنم لیتی ہے حکومت کھاد پر سب سڈی دیتی ہے اور پھر خود ہی گندم کی قیمت بڑھا دیتی ہے ایک ہاتھ دے کر دوسرے ہاتھ سے پیسہ لے لیتی ہے جی ڈی پی کے 7 سے 8 فیصد کا مالیاتی خسارہ سرکاری اداروں سے جنم لیتا ہے حکومت انہی میں بدانتظامی اور بد انتظامی کا خمیازہ خود نہیں عوام کو بھگتنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سرکاری ملازمت میں بڑی سے بڑی سرزنش اور سزا معطلی اور پھر باعزت بحالی ہوتی ہے معطلی کا عرصہ بھی گپ شپ اور موج اڑانے میں گزرتا ہے بھلا یہ بھی کوئی سزا ہے حکومت نے کبھی نہیں بتایا کسی وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ کبھی نہیں بتایا کہ قرضے کہاں استعمال ہوتے ہیں صوابدیدی فنڈز کس لئے ہوتے ہیں 2009 ءمیں چینی کی قیمتیں آسمان پر جانا شروع ہوئیں تو چینی درآمد کی گئی 2012ءمیں چینی کی بہتات ہوئی تو حکومت نے ملوں سے چینی لے کر ذخیرہ کر لی ایسی باتیں منظور شدہ بجٹ سے ماورا ہوتی ہیں کیا اسی کو گڈ گورننس کہتے ہیں۔