• news

قادر ملا پھانسی۔۔۔پاک فوج نے اپنا کردار ادا کیا؟

قادر ملا پھانسی۔۔۔پاک فوج نے اپنا کردار ادا کیا؟

بنگلہ دیش میں پاک فوج کیلئے وہ قیامت کی گھڑی اور محشر کا سماں تھا‘ جب فوج بھارت کی مکتی باہنی اور غداروں کے گھیرے میں آ چکی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ مشرقی پاکستان کی ہوا، فضا، زمین و آسمان اور اپنا سایہ تک بھی پاکستان اور پاک فوج کا دشمن ہوگیا تھا۔ ایسے میں پاکستانی محبان وطن پر خوف اور موت کے سائے منڈلا رہے تھے۔ اکثر نے خاموشی میں عافیت جانی اور گوشہ نشین ہوگئے۔ ایسے سپوتوں کی بھی کمی نہ تھی جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وطن کی سلامتی، سالمیت اور عزت و وقار کیلئے مورچوں تک میںفوج کے شانہ بشانہ ہوگئے۔ پاک فوج کو اس جنگ میں ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا جو پاک وطن کے غداروں نے پاکستان کے دشمن سے مل کر لڑی۔ اسلامی تاریخ کی بدترین شکست ہمارے ماتھے پر بھارت کے ہاتھوں لگنے والا کلنک کا ٹیکہ ہے۔
 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے بعد نوے ہزار سے زائد پاکستانی فوجی، نیم فوجی اور سویلین بھارت کی قید میں چلے گئے اور ڈیڑھ دو سال بعد واپس وطن لوٹ آئے لیکن پاک فوج کا ساتھ دینے والے البدر اور الشمس کے نوجوان اور ان کے خاندان سرکش و شوریدہ سر بنگالیوں کے انتقام کا نشانہ بنتے رہے۔ اب حکومتی سطح پر ان پر ستم ڈھایا جا رہا ہے۔ انکی زندگیوں کے چراغ گل کرنے کی ابتدا ملا عبدالقادر کو ایک نام نہاد انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل کے ذریعے پھانسی دے کر کی گئی۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اوربنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں پر 1971ءمیں پاک فوج کا ساتھ دینے کا الزام ہے اور اس کو بغاوت قرار دیا گیا ہے،حالانکہ باغی تو وہ تھے جو دشمن بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو توڑنے کی سازش اور جنگ کر رہے تھے۔وہ باغی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے تو اصول اور ضابطے بدل گئے۔ غدار سیاہ سفید کے مالک اور وطن کی آن پر قربانی کا جذبہ رکھنے اور اس کا اظہار کرنیوالے موت کے حقدار ٹھہرے۔
ہمارے ہاں روایت رہی ہے کہ جرنیل پاور میں ہو تو اکثر سیاستدان اسکے بوٹوں سے لپٹ کر اقتدار کی منزل پا لیتے ہیں۔ اقتدار میں لانے والے پر بُرا وقت آئے تو اس کو پھانسی گھاٹ پرپہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جنرل مشرف کے ساتھی آج نواز حکومت کا حصہ ہیں جو آرٹیکل 6 کے تحت مشرف پر مقدمہ چلا رہی ہے جس کی سزا وہی ہے جو عبدالقادر ملا کو بنگلہ دیش میں دی گئی۔ جنرل اسلم بیگ اور ساتھی جرنیلوں نے نوازشریف کو تخت دلایا اور تاج پہنایا آج وہ اسی حکومت کے حکم پر مقدمات کی زد میں ہیں۔پاک فوج اپنا ساتھ دینے والوں کو کبھی نہیں بھولتی لیکن بنگلہ دیش میں پاک فوج کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے پاک فوج اس سے لاتعلق کیوں ہوگئی؟ انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل 2010ءمیں قا ئم کیا گیا۔ پاک فوج کو اندازہ ہو جانا چاہئے تھا کہ ہوا کیا رخ اختیار کریگی۔ ایجنسیوں کو متحرک ہو کر ان لوگوں کو بنگلہ دیش سے نکال لینے کی کوشش کرنی چاہئے تھی جو ممکنہ طور پر حسینہ واجد کے ڈریکولائی انتقام کا نشانہ بن سکتے تھے اور ایسے لوگ کوئی گمنام اور بے نام نہیں تھے۔
حسینہ واجد تیسری مرتبہ اقتدار میں آئی۔ پہلے دو ادوار میں اسے ”جنگ آزادی“ میں پاک فوج کا ساتھ دینے والے نظر نہ آئے۔ تیسری ٹرم میں اسے اس وقت ”جنگ آزادی“ کے مخالف نظر آگئے اور اس نے پھانسیوں کا آغاز عین انتخابات سے قبل کیا تاکہ پاکستان سے بنگالیوں کی نفرت کو کیش کرایا جا سکے‘ جیسا بھارت میں ہوتا ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے لوگوں کے اندر پاکستان مخالف جذبات کو وہاں کی پاکستان دشمن اور مقتدر قوتیں ٹھنڈا نہیں ہونے دیتیں۔
ثروت جمال اصمعی کی تحقیق کے مطابق ٹربیونل کتنا غیر جانبدار اور حکومتی دباﺅ سے آزاد تھا اسکی قلعی برطانوی جریدے نے کھول کر رکھ دی ہے۔اکنامسٹ نے 15 دسمبر 2012ءکو ٹربیونل کے اس وقت کے سربراہ جسٹس محمد نظام الحق اور بروسلز میں مقیم انکے دوست اور بنگالی نژاد وکیل احمد ضیاءالدین کے درمیان ہونے والی 230 سے زائد ای میل پیغامات پر مشتمل خط و کتابت اور 17 گھنٹے کی ٹیلی فونک بات چیت کے ریکارڈ کی روشنی میں انکشاف کیا کہ اس عدالت کی حیثیت ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں۔ٹربیونل کے کام میں حکومت کی مداخلت کا اندازہ جسٹس نظام الحق کے ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے رپورٹ کے مطابق ضیاءالدین سے کہے ”وہ فوری فیصلے کیلئے بالکل جنونی ہورہے ہیں۔ حکومت مکمل طور پر پاگل ہو چکی ہے.... میں تمہیں بتا رہا ہوں وہ 16 دسمبر تک فیصلہ چاہتے ہیں۔ ہم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ عدالتی فیصلہ کسی کارخانے کی پیداوار نہیں ہوتا کہ آپ کہیں اور اسے مشین سے نکال دیا جائے....لیکن ہم انہیں سمجھانے کی پوزیشن میں نہیں“۔
 ٹربیونل جس قسم کا انصاف کرر ہا ہے، اسے بے نقاب کرنیوالا ایک اور اہم واقعہ موت کی سزا کے حقدار قرار پانے والے دلاور حسین سعیدی کے ایک نہایت اہم گواہ شکور نجن بالی کا پولیس کے ہاتھوں اغواءاور لاپتہ کردیا جانا ہے۔ یہ شخص چھ ماہ بعد کلکتہ کی ڈم ڈم جیل میں دریافت ہوا۔ مئی کے مہینے میں نیو ایج نامی بنگلہ دیشی اخبار میں اسکی کہانی شائع ہوئی۔ اس نے بتایا کہ نومبر کے مہینے میں اس ڈھاکہ میں انٹرنیشنل ٹربیونل کورٹ کے گیٹ کے سامنے سے عین اس وقت سادہ لباس والے پولیس اہلکاروں نے اغواءکرلیا جب وہ لاور حسین سعیدی کے مقدمے میں یہ گواہی دینے اپنے گاﺅں سے آیا تھا کہ اسکے بھائی کو 1971ءمیں قتل ضرور کیا گیا مگر اس میں سعیدی صاحب کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ بالی کو جب اغواءکیا گیا تو تین وکلائے صفائی اسکے ساتھ تھے۔ ان وکلاءنے ٹربیونل میں شکایت کی کہ صفائی کے ایک نہایت اہم گواہ کو پولیس نے اغواءکر لیا ہے مگر ٹربیونل نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی ۔
 ایسے وقت میں جب عبدالقادر ملاکو پاک فوج کا ساتھ دینے کے الزا م میںپھانسی دی جا رہی تھی تو اس موقع پر وزیراعظم میاں نوازشریف، صدر ممنون اور گورنر پنجاب غلام سرور قوم کو یورپی یونین میں جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے پر مبارکباد دے رہے تھے اور ڈیفیکٹو وزیراعظم چھوٹے میاں دہلی میں منموہن سے ملاقات کر رہے تھے۔ بے حسی کی انتہا کہ حکمرانوں نے اسے بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار د ے کر چپ سادھ لی۔ بنگلہ دیش میں پھانسیاں پاک فوج کا ساتھ دینے اور پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے جدوجہد کی پاداش میں دی جا رہی ہیں تو پھر یہ پاکستان کا مسئلہ کیوں نہیں ہے؟

فضل حسین اعوان....شفق

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر-دی نیشن