امریکہ عالمی قوانین کی پاسداری کرے‘ ڈرون حملوں سے دہشت گردی بڑھتی ہے : اقوام متحدہ جنرل اسمبلی : پاکستان کی تین قراردادیں منظور
امریکہ عالمی قوانین کی پاسداری کرے‘ ڈرون حملوں سے دہشت گردی بڑھتی ہے : اقوام متحدہ جنرل اسمبلی : پاکستان کی تین قراردادیں منظور
نیو یارک + اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + نیٹ نیوز + ایجنسیاں) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی 3 قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔ ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی جس میں 193 ممالک نے حصہ لیا، امریکہ سمیت کسی ملک نے قرارداد کی مخالفت نہیں کی، جنرل اسمبلی کی اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملے عالمی قوانین کے ماتحت لائے جائیں۔ قرارداد میں ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان کا م¶قف تسلیم کرتے ہوئے امریکہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ عالمی قوانین کی پاسداری کرے، انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ ڈرون حملوں میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں جس سے دہشت گردی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ڈرون حملوں پر اٹھنے والے قانونی سوالات پر رکن ممالک میں اتفاق رائے کی ضرورت ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر نظر رکھنے اور احتساب یقینی بنانے کےلئے واقعات کی آزادا نہ تحقیقات کی جائے، ڈرون طیاروں کے استعمال پر فوری اور ضروری معاہدے کئے جائیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ قرارداد پاکستان نے اپنے ہمخیال ممالک کے تعاون سے پیش کی۔ 28 پیراگرافس پر مشتمل قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلح ڈرونز کے استعمال کو ریگولیٹ کیا جائے۔ قرارداد میں پاکستان کے اس م¶قف کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں، یہ حملے بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کے بھی منافی ہیں۔ قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے قانونی معاہدے اور فریم ورک کی ضرورت ہے ان کے استعمال کے حوالے سے قانونی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر بین ایمرسن کی سفارشات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ قرارداد میں ایک حصہ پاکستان کی کوششوں سے شامل کیا گیا ہے جس میں امریکہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ عالمی قوانین کی پاسداری کرے اور انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں پر اٹھنے والے قانونی سوالات پر رکن ممالک میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈرون استعمال کرنے والے ممالک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھیں۔ قراردار میں ڈرون حملوں کی مذمت یا انہیں بند کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ اقوام متحدہ میں ڈرون حملوں کے خلاف مضبوط ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملے عالمی قوانین اور ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔ دفتر خارجہ سے جاری بیان میں اقوام متحدہ میں قرارداد کی متفقہ منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ہم خیال ممالک کی مدد سے اس قرارداد میں ڈرون حملوں کا معاملہ شامل کرایا ہے۔ بیان کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ اقوام متحدہ کی کسی قرارداد میں ڈرونز کا ذکر آیا ہے۔ اس قرارداد میں رکن ممالک پر یہ زور دیا گیا ہے کہ وہ ڈرونز کے استعمال سمیت انسداد دہشت گردی کے اقدامات کرتے ہوئے عالمی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر اور حقوق انسانی کے قوانین کی پاسداری کریں۔ پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج ہوتا رہا ہے۔ ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے علاوہ سلامتی کونسل سمیت دنیا کے متعدد اہم سیاسی اور سفارتی فورمز پر ڈرون حملوںکے خلاف آواز بلند کی ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد کا متفقہ طور پر منظور ہونا پاکستان کی اہم سفارتی کامیابی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد منظور ہونے سے ثابت ہو گیا کہ پاکستان کا ڈرون حملوں کے خلاف م¶قف درست تھا۔ پاکستان نے دنیا کے ہر بڑے فورم پر ڈرون حملوں کے خلاف آواز بلند کی اور ان کوششوںکے نتیجہ میں ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔ واضح رہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے پاس کی جانے والی پہلی قرارداد ہے جس میں ڈرون حملوں کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ جنرل اسمبلی میں پاکستان کی جانب سے پیش کردہ حق خودارادیت سے متعلق قرارداد بھی منظور کر لی گئی۔ 81 ملکوں نے قراردادکی حمایت کی۔ قرارداد میں اس بات پراتفاق کیا گیا کہ حق خودارادیت انسانی حقوق کی ضمانت اور تحفظ کےلئے بنیادی شرط ہے۔ سفارتی تجزیہ کاروںکا کہنا ہے کہ قرارداد کا مقصد عالمی برادری کی توجہ کشمیر اور فلسطین سمیت دیگر قومیتوں کی حق خودارادیت کےلئے جدوجہد کی طرف مبذول کرانا ہے۔ قرارداد میں غیر ملکی فوجی مداخلت، جارحیت اور قبضے کی بھی بھرپور مخالفت کی گئی کیونکہ ایسے اقدامات کے ذریعے عوام کے حقوق غصب کئے جاتے ہیں۔ قرارداد میں ذمہ دار ملکوںسے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ دوسرے ملکوںاورخطوں میں فوجی مداخلت اور غاصبانہ قبضہ فوری ختم کرےں۔ جنرل اسمبلی نے پاکستان کی جانب سے پیش کردہ بین المذاہب اور بین الثقافتی ڈائیلاگ کو فروغ دینے سے متعلق قرارداد کی بھی منظوری دی۔ 193 ارکان پر مشتمل جنرل اسمبلی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ باہمی افہام و تفہیم اور ڈائیلاگ امن کے اہم اجزا ہیں۔ پاکستان اور فلپائن کی جانب سے پیش کردہ قرارداد میں تمام رکن ملکوں پر زور دیا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انسانی حقوق کے تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی کےلئے عالمی سطحی پر فروغ اور احترام کی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ قرارداد میں تمام رکن ملکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پائیدار امن اور ترقی کو یقینی بنانے کےلئے مفاہمتی عمل کو فروغ دیں۔ قرارداد میں بین المذاہبی اور بین الثقافتی ڈائیلاگ کو فروغ دینے کےلئے میڈیا کی کوششوں کا خیرمقدم کیا گیا اس بات پر زور دیا گیا کہ اظہار رائے کی آزادی پر انسان کا بنیادی حق ہے۔ جنرل اسمبلی م یں ایک اور قرارداد منظور کی گئی ہے، جس کے تحت وسیع پیمانے پر الیکٹرانک جاسوسی روکنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس قرارداد کے مسودے کو جرمنی اور برازیل نے مشترکہ طور پر تیار کیا تھا۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق قرارداد کے مسودے میں وسیع پیمانے پر نگرانی سمیت لوگوں کی ذاتی معلومات جمع کرنے اور بیرون ملک جاسوسی سے متعلق عوامل کو ترک کئے جانے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ قرارداد میں ایسے عوامل کے انسانی حقوق پر پڑنے والے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ فائیو آئیز نامی نگرانی کے ایک اتحاد کا حصہ ہیں۔ ان ریاستوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ اس وقت ڈالا، جب بیرون ملک جاسوسی کو غیر قانونی فعل قرار دےئے جانے والے نقطے میں ترمیم کی گئی اور اس کے الفاظ کو نرم کیا گیا۔ اگرچہ قرارداد کے مسودے میں کسی مخصوص ملک یا حکومت کے نام کو واضح نہیں کیا گیا تاہم امریکی قومی سلامتی کے ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے اس ادارے کی طرف سے کی جانے والی وسیع پیمانے پر نگرانی و جاسوسی سے متعلق انکشافات کے بعد یہ قرارداد پیش کی گئی ہے۔ خیال رہے وزیراعظم نوازشریف نے رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون طیاروں کی کارروائیوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔ ڈرون حملوں پر پاکستان کا م¶قف رہا ہے کہ یہ ملکی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی ہیں، ان سے شدت پسندی کے خلاف جنگ پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ امریکہ کا م¶قف ہے کہ ڈرون حملے شدت پسندی کے خلاف جنگ میں م¶ثر ہتھیار ہیں اور ان کا استعمال قانونی ہے۔ ڈرونز کا معاملہ حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کی پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں بھی زیر بحث آیا تھا۔ انہی حملوں کے خلاف پاکستان کے صوبہ خیبر پی کے میں برسر اقتدار جماعت تحریک انصاف نے 23 نومبر سے احتجاجاً دھرنے دے کر طورخم کے راستے نیٹو افواج کے لئے سامان کی افغانستان ترسیل کا عمل بھی بند کروا دیا ہے اور یہ بندش تاحال جاری ہے۔ پاکستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ 2006ءسے شروع ہوا اور اب تک ان حملوں میں القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے اہم رہنما¶ں کے علاوہ سینکڑوں دیگر افراد مارے جا چکے ہیں۔ دریں اثناءسینٹ قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے سامنے بیان میں سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد کے نفاذ کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے چیپٹر سات کے تحت منظوری ضروری ہے۔ جنرل اسمبلی سے قرارداد کی منظوری پر پاکستان کی اخلاقی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے امریکہ میں بھی رائے عامہ ان حملوں کے خلاف ہموار ہو رہی ہے، پاکستان کو اپنا دباﺅ جاری رکھنا چاہئے اسی طرح عالمی قوانین بنتے ہیں۔
جنرل اسمبلی / ڈرون حملے