• news
  • image

قومی اسمبلی : آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لیں گے نہ معاشی نظام ہائی جیک کرنے دیا جائیگا : اسحاق ڈار

قومی اسمبلی : آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لیں گے نہ معاشی نظام ہائی جیک کرنے دیا جائیگا : اسحاق ڈار

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + ایجنسیاں) وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اپنے منشور پر چل رہے ہیں، آئی ایم ایف کی کوئی ڈکٹیشن نہیں لینگے، روپے کی قدر کم نہیں ہو گی۔ کچھ مہنگائی ضرور ہوئی ہے، تنقید زیادہ کی جارہی ہے، کسی کو ملک کا معاشی نظام ہائی جیک نہیں کر نے دیا جائےگا، پرانے قرضے ادا کرنے کےلئے آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینا پڑا، آئی ایم ایف کی دستاویزات خفیہ ہوتی تھیں ہم نے سارا مواد ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے، کوئی نہ پڑھے تو ہم کیا کرسکتے ہیں، پاکستان کی بچت پچپن ارب روپے سالانہ کی ہوگئی ہے، ٹی وی پر بیٹھ کر رونا دھونا بند کیا جائے ¾ پانچ سال میں 2100 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ¾ بھاشا اور داسو ڈیم کے لئے بھیک مانگ رہے ہیں ¾ شفافیت ‘ ایمانداری‘ احتساب اور گڈ گورننس کے بعد پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں ¾ دانشمندانہ اقتصادی پالیسیوں کے باعث حکومت شرح کو 8.8فیصد سے 8فیصد تک لانے میں کامیاب رہی ہے ¾ اگلے پانچ سال کے دوران بجٹ خسارے میں 4فیصد تک کمی لائی جائے گی ¾ معیشت میں استحکام کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا یہاں ہر وقت رونا دھونا پڑا رہتا ہے نام نہاد دانشور ٹی وی پر بیٹھ کر بلاوجہ تنقید کرتے ہیں۔ ڈالر 111سے 106چھ روپے تک آگیا ہے، گردشی قرضے ادا کرکے 67 ارب روپے سود بچایا جس سے سسٹم میں 1700میگاواٹ بجلی آئی۔ حکومت اگلے چار سال کے دوران شرح نمو چھ فیصد تک لے جانے کیلئے پرعزم ہے۔ مجموعی ملکی پیداوار کا دو تہائی ہدف موجودہ مالی سال میں حاصل کر لیا گیا ہے۔ ایوان اور میڈیا میں سرکلر ڈیٹ پر بہت زیادہ تنقید ہوئی ہے یہ سرکلر ڈیٹ 15 ماہ سے ادا نہیں ہوا تھا اس کے نقصانات بہت زیادہ تھے۔ تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر حکومت نے یہ سرکلر ڈیٹ 60 دن میں ادا کرنے کا فیصلہ کیا، 35 اداروں کو 480 ارب روپے دیئے گئے، آئی ایم ایف کے قرضے گزشتہ دور میں ساڑھے آٹھ ارب ڈالر لئے ہم نے قرضہ لے کر اپنے زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر تک بتائے۔ پرانے قرضوںکی پونے 3 ارب ڈالر کی قسطیں دینی ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ 1999ءتک قرضے 2 ہزار 946 ارب‘ مشرف دور میں ساڑھے چھ ہزار ارب اور گزشتہ پانچ سالوں میں یہ قرضے 15 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ سے چین اور عالمی طاقتوں نے ترقی کی۔ اب پاکستان براہ راست سرمایہ کاری کے لئے عالمی سطح پر سازگار ہے۔ پاکستان میں آنے والا ہر دن گزرے دن سے بہتر ہوگا۔ کچھ آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے سابق ایڈوائزر صرف عوام میں مایوسی پھیلا رہے ہیں، ہم ورلڈ بینک کے ممبر ہیں‘ یہاں سے اپنا حصہ لینے کے لئے بڑی طاقتیں بھی لڑتی ہیں ہم نے ورلڈ بینک سے سستا قرض ایک ارب 70 کروڑ ڈالر لینے کا معاہدہ کیا اس سے 70 کروڑ ڈالر داسو ڈیم کےلئے لئے ہیں‘ یہ جنوری میں ملے گا۔ ہم پاکستان کو درست سمت لے جارہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ 672 ارب روپے کے نئے نوٹ چھاپے‘ 466 ارب روپے کے ڈیپازٹ ہوئے‘ کل 206 ارب روپے کے نوٹ چھاپے گئے ہم عوام سے کوئی چیز نہیں چھپائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی بینکاری کی قرارداد آئی یہ ضرور ہونا چاہیے۔ ہم نے اس کی شروعات کردی ہیں۔ جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے پر سب کو مبارکباد دیتے کہاکہ پانچ ماہ میں 17 فیصد نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ اب عوام کاروبار میں سنجیدہ ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔دوسری جانب چودھری نثار کے ریمارکس واپس نہ لینے پر پی پی اور تحریک انصاف نے اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ جاری رکھا، پارلیمنٹ کے صدر دروازے پر پریس سے خطاب میں سید نوید قمر، شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی معذرت تک اپوزیشن کا قومی اسمبلی کے ایوان سے بائیکاٹ جاری رہے گا۔ حکومت نے عمران خان سے سکیورٹی واپس لے لی ہے اپوزیشن کی تمام جماعتیں حکومتی رویہ کے خلاف متحد ہیں، حکومت ایوان کو چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ جمہوریت کے خلاف سازش اپوزیشن نہیں حکومتی بنچوں سے ہو رہی ہے۔ مہنگائی اور لاقانونیت کے خلاف احتجاجی مظاہرے مسلم لیگی حکومت کی انتظامی ناکامی کا ثبوت ہیں۔ یوں لگتا ہے حکومت میں شامل کچھ افراد جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کیلئے سازش کر رہے ہیں۔ حکومتی روئیے کے خلاف اپوزیشن کا بائیکاٹ جاری رہے گا جب تک چودھری نثار اپنے الفاظ واپس لے کر معذرت نہیں کرتے ایوان میں واپس نہیں جائیں گے۔ قائم مقام سپیکر قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو منانے کیلئے وفاقی وزراءاور ارکان پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی ہے، توقع ہے کہ (آج) جمعہ تک کوئی نتیجہ نکل آئے گا۔ نکتہ اعتراض پر محمود خان اچکزئی نے کہا کہ وزیر خزانہ کے پالیسی بیان کے وقت اپوزیشن کی موجودگی لازمی تھی، حکومت کو چاہئے کہ اپوزیشن کو منا کر ایوان میں واپس لائے۔ وقفہ سوالات میں قومی اسمبلی کوبتایا گیاہے کہ ملک میں کہیں بھی لوڈشیڈنگ نہیںہورہی ہے ¾ بجلی چوری والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ ضرور ہوگی ¾ واپڈا ملازمین کو مفت بجلی دینے کی بجائے بلز کی رقم دینے پر غور کیا جارہا ہے ¾ ہائیڈل سے بجلی کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے آئندہ چند ماہ تک لوڈشیڈنگ کا دورانیہ چار سے چھ گھنٹے تک ہو سکتا ہے‘ گوادر پورٹ کو ہانگ کانگ کی طرز پر فری پورٹ بنانے کی کوئی تجویز نہیں ¾ یوٹیلٹی سٹورز پر 7کروڑ 50 لاکھ روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے ¾ ایفی ڈرین کا کوٹہ لینے والی کمپنیوں کی تفصیلات ایوان میں پیش کی جائیں گی ¾ لیب یا ڈرگ سٹور کھولنے کےلئے اتھارٹی موجود نہیں آئندہ سال قانون سازی کرینگے ¾ سرکاری ایئر لائن کےساتھ دوسری ائیر لائنوں کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت ہو تو حج اخراجات میں کمی آسکتی ہے۔ عابد شیر علی نے کہاکہ بجلی چوری میں ملوث اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ بجلی چوری سے سالانہ 150 ارب سے 200 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے بجلی کی پیداوار کے ضمن میں گیس سستا ترین ایندھن ہے۔ مالی سال 2013ءمیں مختص گیس کے مقابلے میں 41 فیصد کوٹہ سے کم گیس دی گئی۔ بجلی چوری کا جرم قابل ضمانت تھا مشترکہ مفادات کونسل نے اس کی ناقابل ضمانت جرم کی منظوری دے دی ہے تاہم کابینہ سے منظوری لینا ابھی باقی ہے۔ بلوچستان میں ٹیوب ویلز کے 13 ہزار سے زائد غیر قانونی کنکشن ہیں یہاں پر اتنے ہی لیگل کنکشن ہیں۔
قومی اسمبلی

epaper

ای پیپر-دی نیشن