• news
  • image

قائم مقام آئی جی ایف سی شہریوں کو جبری لاپتہ کرنے والے اہلکاروں کے نام بتائیں : چیف جسٹس

قائم مقام آئی جی ایف سی شہریوں کو جبری لاپتہ کرنے والے اہلکاروں کے نام بتائیں : چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نیٹ نیوز + ایجنسیاں) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بلوچستان میں فرنٹیئر کور کے قائم مقام سربراہ سے کہا ہے کہ وہ اپنے ادارے کے ا±ن اہلکاروں کی فہرست عدالت میں پیش کریں جو مبینہ طور پر جبری گمشدگی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ عدالت نے کہا کہ وردی تحفظ فراہم کرنے کی علامت ہے اگر وردی والے ہی لوگوں کو زبردستی گمشدگی کے واقعات میں ملوث ہوں تو لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس تقویت پانا شروع کر دیتا ہے۔ چیف جسٹس نے ایف سی کے قائم مقام سربراہ کو حکم دیا کہ وہ عوام میں موجود اس احساسِ محرومی اور بے بسی کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کریں۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال سے متعلق مقدمے کی سماعت کی تو ایف سی کے قائم مقام سربراہ بریگیڈیئر خالد سلیم نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ انیس ایسے اہلکاروں کی شناخت ہوئی ہے جن پر ش±بہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ لوگوں کو جبری طور پرگمشدہ کرنے کے واقعات میں ملوث ہیں۔ ا±ن میں چار افراد کا تعلق ایف سی سے ہے جن میں ایک اہلکار اللہ بخش کی شناحت ہوئی ہے جو نان کمشنڈ افسر ہے ان دنوں وہ عبوری ضمانت پر ہے تین افراد کو شناحت کے عمل سے گ±زارا جا رہا ہے۔ باقی اہلکار فوج میں واپس چلے گئے ہیں اس ضمن میں وزارت دفاع سے کہا گیا ہے کہ وہ ا±ن اہلکاروں اور افسروں کی نشاندہی میں معاونت کریں۔ ا±نھوں نے کہا کہ صوبے میں گمشدہ ہونے والے افراد کو بازیاب کرانے کے بعد جامع رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ صوبے سے 26 ڈاکٹروں کو اغوا برائے تاوان کے سلسلے میں اغوا کیا گیا 90 ڈاکٹر بلوچستان چھوڑ کر ملک کے دوسرے حصوں میں چلے گئے ہیں۔ صرف کوئٹہ میں دو ہزار سے زائد ڈاکٹر موجود ہیں ا±ن کی سکیورٹی کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ اب تک جتنے ڈاکٹر بازیاب ہوئے ا±ن میں سے کوئی بھی اغوا کاروں کے بارے میں معلومات دینے کو تیار نہیں جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر ڈاکٹر خود ہی تاوان ادا کرکے واپس آتے رہیں گے اور قانون نافذ کرنے ولے اداروں کو ملزمان کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کریں گے تو پھر ان وارداتوں کا کیسے سدباب ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹروں کے نمائندہ گل محمد کاکڑ نے عدالت کو بتایا کہ ا±نھیں معلوم ہے کہ اغوا کار کون ہیں لیکن وہ اس لیے نہیں بتاسکتے کیونکہ اس سے بازیاب ہونے والے افراد اور ا±ن کے اہلِ خانہ کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یونیفارم عوام کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے دیا گیا ہے اگر شہری اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو پھر یہ معاملہ کیسے حل ہوگا۔ چیف جسٹس تصدق حسین نے بھی ایف سی افسروں کو ڈی آئی جی سی آئی ڈی کے روبرو پیش نہ کرنے اور باقی لاپتہ افراد بازیاب نہ کرانے پر عدالتی حکم پر عملدرآمد کی ہدایت کی ہے۔ بلوچستان بدامنی کیس اور آئی جی ایف سی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے قائم مقام آئی جی ایف سی بریگیڈئر خالد سلیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی مدد کے بغیر قانون نافذ کرنے والے ادارے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرنا آپ کی ڈ یوٹی کا حصہ ہے، آپ کی وردی تحفظ کی علامت ہونی چاہئے لیکن بدقسمتی سے لوگ ایف سی پر اغوا کا ا لزام لگا رہے ہیں، ایف سی ریاستی ادارہ ہے، ریاست انصاف کی علامت ہے، سچ بولیں گے تو آپ کو عدالت میں وکیل کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی، عام شہریوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد بھی بڑے پیمانے پر جاںبحق ہوئے ہیں، پولیس اکیلی کچھ نہیں کر سکتی جو مغوی کروڑوں روپے تاوان دے کر واپس آ گئے ہیں وہ پولیس کے سامنے ملزموں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ عدالت نے ڈاکٹروں کے نمائندوں اور آئی جی پولیس کو میٹنگ کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ قائم مقام آئی جی ایف سی اور ہوم سیکرٹری کو آئندہ سماعت پر حاضری ممکن بنانے کی تاکید کرتے ہئے کیس کی سماعت 26 دسمبر تک ملتوی کر دی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ خاور نے بریگیڈیئر خالد سلیم کی بطور قائم مقام آئی جی ایف سی بلوچستان تقرری کا نوٹیفکیشن پیش کیا، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے حکومت بلوچستان کی جانب سے صوبے میں امن و امان کے حوالے سے پیشرفت پر مبنی رپورٹ پیش کی۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے نمائندہ ڈاکٹر گل محمد کاکڑ نے عدالت کو بتایا کہ ڈکٹروں کے آئے روز اغوا کی وجہ سے 90 ڈاکٹرز صوبہ چھوڑ گئے ہیں، اغوا ہونے والے ڈاکٹروں میں سے 26 افراد کروڑوں روپے تاوان ادا کر کے رہا ہوئے ہیں مگر انتظامیہ کی جانب سے ڈاکٹروں کے تحفظ یا ملزموں کی گرفتاری کے لئے کوئی اقدامات تاحال نہیں کئے گئے۔ آئی جی پولیس بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹروں کے تحفظ کے لئے اقدامات تجویز کرنے کی غرض سے کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے پی ایم اے کے ساتھ مل کر سفارشات تیار کرنی ہیں۔ سول ہسپتال کوئٹہ کی چاردیواری بنا دی گئی ہے، وہاں پولیس کی چوکی بھی قائم کر دی ہے، اس کے علاوہ ڈاکٹرو ں کے پرائیویٹ کلینکس پر پولیس موبائلیں کھڑی کر دی ہیں، ڈاکٹروں کو اسلحہ لائسنس فراہم کرنے کا بھی فیلصہ کیا گیا ہے اور بھی جو اقدامات پی ایم اے تجویز کرے گا ان پر عمل کیا جائے گا۔ چیف سیکرٹری بلوچستان نے کہا کہ وہ کوئٹہ جا کر پی ایم اے کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے اور انہوں نے سکیورٹی کے لئے جو نئی تجاویز دیں ان پر غور کیا جائے گا تاہم وہاں سکیورٹی کا مسئلہ صرف ڈاکٹروں کے لئے نہیں دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے بھی یہی مطالبات کرتے ہیں۔ پولیس کے پاس اتنی نفری نہیں اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر نجی سکیورٹی گارڈز کی خدمات حاصل کریں، انتظامیہ ان سے پورا تعاون کرے گی۔ ہوم سیکرٹری بلوچستان نے بتایا کہ صوبے سے گذشتہ سال 103 افراد اغوا ہوئے تھے جن میں سے 38 واپس آئے مگر ملزم گرفتار نہیں ہوئے۔ ا س سال اغوا کے 48 واقعا ت ہوئے جن میں سے 44 واپس آ گئے۔ بیشتر اغوا کار بھی گرفتار کئے مگر مسئلہ یہ ہے کہ واپس آنے والے پولیس سے تعاون نہیں کرتے نہ ہی ملزموں کے بارے میں کوئی معلومات دیتے ہیں۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں اس لئے نام بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ذاتی سکیورٹی فراہم کرنے سے کچھ نہیں ہو گا جب تک مسئلے کی جڑ کو ختم نہیں کیا جاتا انتظامیہ مسئلے کو اس کی بنیاد سے حل کیوں نہیں کرتی۔ جب تک ملزموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ جو لوگ واپس آئے ہیں وہ تو ملزموں کی نشاندہی کر سکتے ہیں، پولیس اکیلی کچھ نہیں کر سکتی جب تک عوام میں جرا¿ت اور شعور پیدا نہ ہو، ملک اس وقت بحرانی کیفیت کے دور سے گزر رہا ہے اور شہریوں کی مدد کے بغیر قانون نافذ کرنے والے ادارے آگے نہیں بڑھ سکتے، جہاں لوگوں کی اموات ہوئی ہیں وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد بھی بڑے پیمانے پر جاںبحق ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر پڑھے لکھے لوگ ہیں وہ ہی مدد نہیں کریں گے تو دیگر لوگ کیسے آگے آئیں گے۔ چیف جسٹس نے پی ایم اے کے نمائندہ ڈاکٹر گل کاکڑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اس معاملے کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں، آگے بڑھیں اور ملزموں کے نام کی نشاندہی کریں، پولیس نام صیغہ راز میں رکھے گی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر ارباب کاسی کو اغوا کرنے والوں نے ایک ارب روپے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اس کے قبیلے نے کہہ دیا ہے کہ چاہے اسے قتل کر دو ہم کسی بلیگک میلنگ میں نہیں آئے گے۔ قائم مقام آئی جی ایف سی خالد سلیم نے بتایا کہ لاپتہ افراد کو ڈھونڈنے کے حوالے سے عدالتی احکامات پر عمل کرنے کے لئے ہرممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ آپ کو ایف سی کے افسروں کو ڈی آئی جی، سی آئی ڈی کے سامنے پیش کرنا تھا۔ اس پر قائم مقام آئی جی ایف سی نے بتایا کہ 19 افراد ہیں جن میں سے کچھ فوج میں واپس جا چکے ہیں، ان کے حوالے سے وزارت داخلہ کو لکھا ہے باقی افراد کی نشاندہی کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اب تک ایک شخص اللہ بخش کی نشاندہی ہوئی ہے جو ضمانت پر ہے۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی حساس ہے اسے آسان نہ لیں۔ قائم مقام آئی جی نے کہا کہ ہم امن و امان قائم رکھنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ فاضل عدالت سے استدعا ہے کہ وہ ایف سی کے بارے میں پائے جانے والے اس منفی تاثر کو دور کرے۔ جس پر جسٹس امیرہانی نے کہا کہ یہ تاثر آپ اپنے کردار سے ہی دور کر سکتے ہیں۔ عدالت نے آئی جی ایف سی کو حکم دیا کہ وہ آئندہ سماعت پر پیش ہو کر رپورٹ دیں کہ کتنے لوگ فوج میں واپس گئے ہیں؟ کتنوں کی نشاندہی ہوئی، لاپتہ افراد کو ڈھونڈنے کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوئی جبکہ آئی جی پولیس کو حکم دیا کہ وہ آئندہ سماعت پر صوبے سے اغوا ہونے، بازیاب ہونے اور اغوا میں ملوث ملزموں کی گرفتاری کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ داخل کریں۔ مزید سماعت 26 دسمبر کو ہو گی۔ قائم مقام آئی جی ایف سی بریگیڈیئر خالد سلیم عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرنا آپ کی ڈیوٹی کا حصہ ہے آپ کی وردی تحفظ کی علامت ہونی چاہئے۔ آئی جی ایف سی کے وکیل عرفان قادر کو عدالت نے طلب کر لیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی ایف سی اب تک بیمار ہیں اور چھٹی پر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک عدالتی حکم پر عمل نہیں ہوتا، آئی جی ایف سی کو کیسے سنا جا سکتا ہے۔ عدالت نے قائم مقام آئی جی ایف سی بریگیڈئر خالد سلیم کو پیر کو طلبی کا نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو بھی 26 دسمبر کو طلب کیا ہے۔ قائم مقام آئی جی ایف سی بریگیڈئر خالد سلیم سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے لاپتہ افراد کی بازیابی کا حکم دیا ہے، آپ کی ڈیوٹی ہے کہ عدالتی حکم پر عمل کریں۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ آپ اپنے لوگوں کو شناخت کیوں نہیں کر سکے۔ بریگیڈیئر خالد سلیم نے کہا کہ سی آئی ڈی کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ لوگ ایف سی پر اغوا کا الزام لگا رہے ہیں۔ آن لائن کے مطابق مالاکنڈ سے لاپتہ 35 افراد کو بازیاب کراکے سپریم کورٹ میں پیش نہ کیا جا سکا۔ قائم مقام آئی جی ایف سی خالد سلیم عدالت میں پیش ہو گئے۔ آئی جی ایف سی نے کہا کہ یہ تاثر ختم کیا جائے کہ تمام لاپتہ افراد ایف سی نے اٹھائے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عملی طور پر اس تاثر کو دور کریں۔ عدالت نے لاپتہ افراد کو بازیاب، ڈاکٹروں سمیت تمام طبقات کو فول پروف سکیورٹی فراہم اور ایف سی افسران کو ڈی آئی جی سی آئی ڈی کے روبرو پیش کرکے رپورٹ دینے کا حکم دیا جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ملزموں کو انجام تک پہنچائے بغیر بلوچستان میں امن کا قیام ممکن نہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن