بنگلہ دیش کے بارے میں وزیر داخلہ کے بیان سے ابہام پیدا ہوا : سینٹ قائمہ کمیٹی
اسلام آباد(آئی این پی/آن لائن) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور نے بنگلہ دیش کے حوالے سے وزیر داخلہ کے بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے، وزارت خارجہ اور داخلہ کے مؤقف الگ الگ ہیں کمیٹی نے اختلاف رائے کے باعث معاملہ زیر بحث نہ لانے کا فیصلہ کیا ،کمیٹی نے بیرون ملک سفارتخانوں میں عام لوگوں کی امداد نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام کے پیسے سے مراعات حاصل کی جارہی ہیں مگر عام آدمی کی مدد نہیں کی جارہی،سکینڈل بننے کے ڈر سے سینیٹر سحر کامران کا معاملہ دباتے ہوئے تحریری رپورٹ طلب کر لی۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور و گلگت بلتستان کا کا اجلاس چیئرمین حاجی عدیل کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں وزارت خارجہ کے حکام نے شرکت کی۔کمیٹی نے حکومت کی جانب سے فیصلے کرکے واپس لینے پر تشویش کا اظہار کیا، قائم مقام سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ عبدالباسط کا نام سیکرٹری خارجہ کیلئے زیر غور تھا تاہم ترقی نہ ملنے کی وجہ سے انہیں نہیں لگایا جا سکا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزیر خارجہ کمیٹی میں آتے ہیں نہ ہی پارلیمنٹ آتے ہیں،یہ وزارت وزیراعظم کے پاس ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ اس وقت وزارت خارجہ کے5وزیر ہیں جس کی وجہ سے ادارے میں کنفیوژن نظر آرہی ہے۔ ہم افغانستان کے دورے پر تھے تو لطیف محسود کو افغان حکومت نے سرکاری مہمان بنا رکھا تھا، بیرون ممالک سفارتخانوں میں عام لوگوں کی مدد نہیں کی جاتی، مدد کیلئے سفارش کی ضرورت ہوتی ہے، سفارش کے بغیر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بیرون ملک جیلوں میں لوگ مرجاتے ہیں مگر کوئی مدد نہیں کی جاتی، سفارتکار پاکستانی عوام کے پیسوں سے بیرون ملک مراعات حاصل کر رہے ہیں،کبھی کسی سفیر نے نہیں کہا کہ میری تنخواہ نہ بھیجیں کیونکہ میں شہریوں کی صحیح مدد نہیں کرسکا۔کمیٹی نے جمہوریہ چیک میں خواتین کے اغواء کے حوالے سے کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مزید تفصیلات اور رپورٹ طلب کر لی۔کمیٹی نے مختلف ممالک کے ساتھ سرکاری پاسپورٹ پر سفر کے حوالے سے معاہدوں کے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ اس وقت پاکستانی طالب علموں کو امریکہ یا مغرب میں ویزے نہیں ملتے،طلبہ چین جارہے ہیں وہاں کا ایجوکیشن مشن بند کر رہے ہیں یہ غلط فیصلہ ہے۔اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ سٹرکچرنگ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے اس کمیٹی کی سربراہی اسحاق ڈار کر رہے ہیں جبکہ اس میں دیگر وزیر شامل ہیں،اس کمیٹی نے چین کو نہیں چھیڑا۔کمیٹی کی جانب سے برمنگھم میں سفارتخانے کے ایک افسر کی جانب سے ملالہ پر حملے کے بعد ٹی اے ڈی اے کی مد میں ایک لاکھ پاؤنڈ لینے کے متعلق استفسار پر وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری ابن عباس نے کہا کہ یہ اعدادوشمار غلط ہیں، جس افسر پر الزام لگایا گیا ہے وہ برمنگھم میں موجود ہے،اس نے ٹی اے ڈی اے نہیں لیا،کمیٹی نے لندن میں سفارتخانے کے عملے کی جانب سے لندن سے برمنگھم دورے کے دوران اخراجات کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔رکن کمیٹی فرحت اللہ بابر نے کہا کہ دفتر خارجہ نے بنگلہ دیش کے حوالے سے کچھ اور پوزیشن لے رکھی ہے۔ وزیر داخلہ کا بیان اس کے برعکس سے اس سے کنفیوژن ہورہی ہے اور اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے وقت اگر ایک بھی بے قصور قتل ہوا ہے تو ہمیں معافی مانگنی چاہئے۔ مشاہد حسین نے کہا کہ قومی اسمبلی نے قرارداد منظور کی ہے،پھانسی اور معافی الگ الگ معاملات ہیں۔ سب کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہیں ہونی چاہئے تھی،بنگلہ دیش حکومت پھانسی دے کر سیاست کر رہی ہے جو صورتحال پیدا ہوگئی ہے یہ چلتی رہی تو وہاں فوجی اقتدار پر آ جائیںگے۔ حاجی عدیل نے کہا کہ دفتر خارجہ کا بیان کچھ ہے جبکہ وزیر داخلہ کا کچھ اور ہے یہ غلط ہے۔کمیٹی میں اس معاملے پر اختلافات کے باعث معاملہ زیر بحث نہ لانے کا فیصلہ کرلیا۔کمیٹی نے سینیٹر سحر کامران کی جدہ کے قونصل جنرل کے خلاف شکایت کے ایجنڈا پر بات نہیں کی اور اس حوالے سے تحریری رپورٹ مانگ لی ہے۔امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کی آرمی چیف راحیل شریف سے ملاقات کے دوران دفتر خارجہ کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔یہ انکشاف اجلاس میں دفتر خارجہ کے حکام نے کیا ۔ قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ نے بیرون ملک قید پاکستانی شہریوں کے حوالے سے وزارت خارجہ کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی سفارتخانوں کی کارکردگی کی تفصیلی رپورٹ کمیٹی کو پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ارکان کمیٹی نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں میں تعینات افسروں کا متعلقہ ممالک میں موجود پاکستانی شہریوں کیساتھ کوئی رابطہ نہیں۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے کمیٹی کو بتایا کہ سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے نے انتہائی مؤثر اقدامات کئے۔ سعودی عرب کے قانون کی تبدیلی کے بعد پاکستانی سفارتخانے 8 لاکھ سے زائد پاکستانی شہریوں کو لیگل کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔ یورپ میں پاکستانی سفارتی مشنوں کی کوششوں سے یورپی یونین میں جی پی ایس پلس کے تحت مارکیٹ تک رسائی حاصل کی گئی ہے۔ سیکرٹری خارجہ نے بنگلہ دیش کی صورتحال پر کمیٹی کو بتایا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، اس کی قرارداد کے بعد پاکستانی سفیر کو بنگلہ دیشی حکومت نے طلب کیا تھا اور پاکستانی پارلیمنٹ کی قرارداد کو واپس لینے کی بات کی جس پر پارلیمنٹ اپنا مؤقف پیش کرے گی۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کے بیرون ملک مشنوں میں کمرشل کونسلر کے خاتمے کے حوالے سے سوال پر سیکرٹری خارجہ نے بتایا کہ وزیر خزانہ کی سربراہی میں بیرون ملک سفارتخانوں کے اخراجات کم کرنے پر تفصیلی بات چیت ہوئی تھی جس میں غیر فعال ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانوں میں غیر فعال ڈیپارٹمنٹس کو ختم کرنے بارے بات چیت ہوئی ہے۔ کویتی حکومت کی جانب سے پاکستانی محنت کشوں کو ویزوں کے اجراء پر پابندی کے حوالے سے ایڈیشنل سیکرٹری ایشیاء گلف نائلہ چوہان نے بتایا کہ کویت کے وزیراعظم کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستانی محنت کشوں کیلئے ویزوں کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔ کویت نے آئندہ چند ماہ میں پاکستانیوں پر ویزوں کی پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اوورسیز ڈیپارٹمنٹ کا ایک وفد اس حوالے سے بات چیت کیلئے جلد کویت جائیگا۔ اجلاس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے نہ آنے پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اجلاس میں وزارت خارجہ کے معاون خصوصی نہیں آسکتے۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ملک میں دو ڈی فیکٹو وزرائے خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار اور شہباز شریف بھی کام کر رہے ہیں اس لئے خارجہ پالیسی میں کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ نیٹو سپلائی کے معاملے پر ایوان بالا کی خارجہ امور اور دفاعی امور سے متعلق مجالس قائمہ کے مشترکہ اجلاس پر اتفاق کیا گیا۔ سیکرٹری خارجہ نے کمیٹی کو امریکی وزیر دفاع چیک ہیگل کے حالیہ دورہ پاکستان کے بارے میں بھی بریفنگ دی اور بتایا کہ امریکی وزیر دفاع کے دورہ پاکستان کے موقع پر دوطرفہ سکیورٹی معاملات زیر غور آئے تھے پاکستان امریکہ تعلقات کو باہمی اعتماد اور باہمی اعتماد کی بنیاد پر استوار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اقتصادی تعاون کی بنیاد پر ان تعلقات کو فروغ ملے۔ انہو ںنے واضح کیا کہ امریکی وزیر دفاع نے نیٹو سپلائی کے معاملات پر پاکستان کو زبانی اور تحریری طورپر کوئی دھمکی نہیں دی تھی اس طرح نیٹو سپلائی روٹس کو بند کرنے کے معاملات پر بھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ ڈرون حملوں کا معاملہ پوری شدت کے ساتھ اٹھایا گیا تھا اور امریکی وزیر دفاع کو ایک بار پھر آگاہ کیا گیا کہ یہ حملے پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں اور دہشت گردی کے خلاف کاوشوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان افغان تعلقات خوشگوار بنانا چاہتے ہیں۔ معاملات کے حوالے سے افغان حکومت کے تلخ و تیز بیانات میں کمی آئی ہے اس مسئلے پر تینوں ممالک میں ہم آہنگی ضروری ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری امریکہ ڈیسک نغمانہ ہاشمی نے بتایا کہ نئے چیف آف آرمی سٹاف سے امریکی وزیر دفاع کی ملاقات خیرسگالی کی ملاقات تھی۔ سرکاری سطح پر دفاعی تعاون پر مذاکرات ہوتے ہیں تو دفتر خارجہ کے نمائندے موجود ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان اور امریکہ کے درمیان سٹرٹیجک معاہدے کی بیرونی جارحیت سے متعلق شق پر خطرات کا اظہار کیا ہے۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی کہا کہ ابھی تک افغانستا ن میں لطیف اللہ محسود کی گرفتاری کے معاملے پر امریکی میڈیا میں آنے والے الزامات کا پاکستان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ رابطوں اور بات چیت میں افغان حکومت سے انکی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی معاملے پر بات کی جاتی ہے، افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے بعد کوئی سیاسی خلاء پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ انہو ںنے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات سے معاملے کا وزارت خارجہ سے کوئی تعلق نہیں یہ وزارت داخلہ کا معاملہ ہے وہ ہی اس مفاہمتی عمل سے آگاہ ہونگے۔ کمیٹی نے افغان مسئلے پر خصوصی اجلاس کا فیصلہ کیا۔ بنگلہ دیش میں عبدالقادر ملا کی پھانسی کے معاملے پر سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ اگر بنگلہ دیشی حکومت انہیں معاف کر دیتی تو اچھا تھا سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ عبدالقادر ملا کی پھانسی قطعاً بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم حسینہ واجد نے سیاسی فائدے کیلئے انہیں تختہ دار پر لٹکوا دیا جس طرح مصر میں فوجی بغاوت کا سعودی عرب نے خیرمقدم اور ترکی نے اس کی مذمت کی تھی۔ اس طرح پاکستان کو بھی اپنی آزاد و خود مختار حیثیت میں کسی بھی معاملے پر رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی آزاد و خودمختار ہے وہ قرارداد منظور کر سکتی ہے۔ حسینہ واجد بنگلہ دیش میں فوجی بغاوت کیلئے راہ ہموار کر رہی ہیں۔