• news

خصوصی عدالت‘ ججوں اور پراسیکیوٹر کیخلاف مشرف کی درخواستیں مسترد‘ غداری کے مقدمے کی سماعت آج ہو گی

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل، ججز کی تقرری اور پراسیکیوٹر کی تعیناتی کے طریقہ کار کیخلاف پرویز مشرف کی درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیں جس کے بعد خصوصی عدالت اسلام آباد کی نیشنل لائبریری میں آئین کے آٹیکل 6 کے تحت باقاعدہ سماعت کا آغاز (آج) منگل کو کریگی۔ مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے کہا ہے کہ پرویز شرف نے تمام متعلقہ حکام سے مشاورت کے بعد ملک میں ایمرجنسی لگائی، صرف میرے کے موکل کو نشانہ بنانا انصاف کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوگا۔ جسٹس ریاض احمد خان پر مشتمل ایک رکنی بنچ نے پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ درخواستوں میں مشرف کے وکلا کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا کہ خصوصی عدالت کے تینوں ججز غیر جانبدار نہیں، خصوصی عدالت کے قیام کا نوٹیفکیشن بھی مشاورت کے بغیر جاری کیا گیا۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا اسلئے انہیں بنچ کا حصہ بنایا گیا اور جسٹس طاہرہ صفدر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی زبردست حامی تھیں، جسٹس یاور علی جسٹس رمدے کے قریبی دوست سمجھے جاتے تھے اسلئے انہیں نامزد کیا گیا۔ سابق صدر کے وکیل خالد رانجھا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مشرف نے 3 نومبر کا اقدام بطور آرمی چیف کیا تھا۔ خالد رانجھا نے کہا کہ ان کے موکل نے جب ایمرجنسی لگائی تو وہ باوردی صدر تھے اسلئے انکا ٹرائل صرف آرمی ایکٹ کے تحت ہی ہو سکتا ہے کیونکہ آرمی ایکٹ کی دفعہ 92 کے تحت کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسر کا ٹرائل سول کورٹ نہیں کرسکتی۔ خالد رانجھا نے کہا کہ پرویز مشرف نے تمام متعلقہ حکام سے مشاورت کے بعد ملک میں ایمرجنسی لگائی تاہم صرف انکے موکل کو نشانہ بنانا انصاف کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوگا۔ عدالت نے خالد رانجھا کو موقف کی تائید میں متعلقہ دستاویز کی نقول جمع کرانے کی ہدایت کردی اور مختصر وقفے کا اعلان کیا۔ وقفے کے بعد پرویز مشرف کے وکیل انور منصور خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ خصوصی عدالت تشکیل دے جو ہائیکورٹس کے 3 ججوں پر مشتمل ہو، جب یہ قانون بنایا گیا تب ملک میں 3 ہائیکورٹس تھیں جن کی تعداد اب 5 ہو چکی ہے۔ انور منصور نے کہا کہ چیف جسٹس کے مشورے سے جب ٹرائل کیلئے عدالت تشکیل دی گئی تب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تھے جو پرویز مشرف کے خلاف تھے۔ وکیل مشرف نے کہا کہ جن ججوں کو تعینات کیا گیا ہے وہ جانبدار ہیں اور سابق چیف جسٹس کے فعال کارکن ہیں۔ انور منصور نے بتایا کہ صدر مملکت کے سوا کوئی آرٹیکل 6 کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں رکھتا، وزیراعظم چاہیں تو وہ صدر کو درخواست کریں گے اور نوٹیفکیشن صدر کے نام سے جاری ہوگا۔ انکے مطابق وزیراعظم بھی کابینہ سے منظوری کے بعد ہی آرٹیکل 6 کی کارروائی کی سفارش صدر سے کرسکتے ہیں۔ انور منصور خان نے کہا کہ ایمرجنسی کا فیصلہ کور کمانڈرز مشاورت کے بعد ہوا صرف مشرف کے خلاف کارروائی کیوں کی جا رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 90 کے تحت وفاقی حکومت وزیراعظم کے ذریعے صدر کو آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کیلئے لکھے گی تاہم یہاں ایک جوائنٹ سیکرٹری کے ذریعے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، قواعد کے بغیر مشرف کیخلاف کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 3 نومبر کا پی سی او فردِ واحد کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس میں 4 گورنرز، چئیرمین جوائنٹ چیفس، وائس چیف آف آرمی سٹاف اور تمام کور کمانڈرز بھی فیصلے میں شامل تھے تاہم نشانہ صرف سابق صدر کو ہی بنایا جا رہا ہے۔ پراسیکیوٹر صرف اٹارنی جنرل ہی ہو گا اگر وہ دستیاب نہ ہوں تو پراسیکیوٹر کوئی ڈپٹی اٹارنی جنرل ہوگا۔ انور منصور نے کہا کہ پراسیکیوٹر نے درخواست گذار پرویز مشرف کے خلاف میڈیا پر بیانات دئیے اس سے پراسیکیوٹر کی جانبداری ثابت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پراسیکیوٹر اکرم شیخ پہلے بھی مشرف کیخلاف پیش ہوتے رہے ہیں۔ متعصب شخص پراسیکیوٹر مقرر نہیں ہوسکتا، پراسیکیوٹر کا کام عدالت کی معاونت کرنا اور غیرجانبدار رہنا ہے۔ پراسیکیوٹر مقرر ہونے کے بعد اکرم شیخ نے وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات بھی کی۔ انور منصور نے کہا کہ 2007ء میں مشرف پر آئین توڑنے کا الزام لگایا گیا، ایمرجنسی میں آئین کی چند شقیں معطل کی گئی تھیں، آئین توڑا نہیں گیا تھا۔ عدالت نے پرویز مشرف کی خصوصی عدالت میں ٹرائل کیخلاف درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بعدازاں عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں پرویز مشرف کی تینوں درخواستیں خارج کر دیں۔ دوسری جانب غداری کے مقدمہ کیلئے قائم خصوصی عدالت مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کی (آج ) منگل سے باقاعدہ سماعت شروع کریگی، خصوصی عدالت پہلے ہی حکومتی درخواست سماعت کیلئے منظور کرکے سابق صدر کو طلب کرچکی ہے۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں جسٹس یاور علی اور جسٹس طاہرہ صفدر پر مشتمل خصوصی عدالت سکیورٹی وجوہات کی بناء پر سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کی نیشنل لائبریری کورٹ روم میں سماعت کریگی۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس نے سابق صدر کی خصوصی عدالت میں پیشی کے موقع پر فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے سے معذرت کرلی تھی تاہم خصوصی عدالت کے گرد کنٹینر لگا کر حصار قائم ہوگا، سی سی ٹی کیمرے بھی نصب کر دئیے گئے۔ ہال کے اندر ججز، گواہان اور وکلا کے بیٹھنے کی جگہ بھی بنائی گئی ہے۔ دوسری جانب مشرف نے 3 نومبر کے اقدامات کے خلاف فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کردی ہے۔ ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی۔ درخواست گذار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ 31 جولائی 2009ء کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

ای پیپر-دی نیشن