انا
یہ اپنی نوعیت کا عجیب مقدمہ تھا۔ ڈاکٹر کی غفلت سے مریض کی موت پر لواحقین ڈاکٹر کے خلاف احتجاج، مظاہرے کرتے اور اسے عدالت میں گھسیٹ کر لاتے دیکھے گئے ہیں، آج والدین ایک ڈاکٹر کو اپنے بیٹے کی جان بچانے کا الزام لگا کر عدالت میں کھینچ لائے تھے۔ ان کا مو¿قف تھا کہ ہم نے ہسپتال انتظامیہ کو لکھ کر دیا تھا کہ بچے کی جان بچانے کے لئے خون کی ضرورت پڑے تو خون نہ لگایا جائے، جان جاتی ہے تو پروا نہ کریں لیکن انہوں نے اس کے باوجود خون لگا دیا جس سے بچے کی جان تو بچ گئی لیکن ہمارے مذہبی عقائد کی توہین ہوئی۔ پنسلوانیا امریکہ میں عیسائیت کے جوہا وٹنس نامی فرقے کی بنیاد Charles Taze Russell اور ساتھیوں نے 1870ءمیں رکھی ۔ وہ اُسی طریقے سے رہنا چاہتے ہیں جس طرح حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی زندگی گزاری۔ ان کے باقی عیسائیوں سے الگ چرچ اور مذہبی رسومات ہیں۔ان کی دنیا میں تعداد 80 لاکھ کے قریب ہے۔ ٹی وی دیکھتے ہیں نہ ریڈیو سُنتے ہیں، فوج اور فوج سے منسلک اداروں میں ملازمت کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ کرسمس تو کیا کوئی بھی تہوار نہیں مناتے،اس فرقے میں کسی بھی صورت میں مریض کو خون دینے کی اجازت نہیں۔
عدالت نے ڈاکٹر سے دریافت کیا تو اس نے اعتراف کیا ”بچے کے والدین نے خون لگانے سے منع کیا تھا۔ میں نے مریض کی حالت بگڑتی دیکھی۔جان بچانے کے لئے خون دینا ناگزیر ہو گیا تو میں نے ان کی ہدایت کے برعکس خود فیصلہ لیا۔ میرا کام مریض کی جان بچانے کے لئے ہرممکنہ اقدام کرنا ہے جو میں نے کِیا جس سے بچے کی جان بچ گئی۔ “ جج صاحب مخمصے میں تھے کہ کارروائی کو آگے کیسے بڑھائیں!۔ جس کی زندگی بچی وہ لڑکا بھی عدالت میں موجود تھا۔ جج کی اس نو دس سال کے لڑکے پر نظر پڑی تو اس سے پوچھا ”تم زندہ رہنا چاہتے ہو یا مرنا ؟“ اس موقع پر عدالت میں موجود ہر شخص کی نظریں بچے پر تھیں ۔ لڑکے کا جواب سُن کر جج نے دوسرے لمحے کیس کا فیصلہ سُنا دیا۔ لڑکے نے کہا ”میں زندہ رہنا چاہتا ہوں“ اس پر جج نے مقدمہ خارج کر دیا۔
آخری نظام حیدر میر عثمان 1967ءمیں انگلینڈ کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ خون لگانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ لندن میں کوئی شاہی خاندان کا چشم و چراغ ہے تو اس کا خون لے کر لگا دیا جائے۔ شہر میں شاہی خاندان کا کوئی فرد نہ ملا۔ ڈاکٹروں نے کہا آپ کے گروپ کا خون وافر ہے وہ لگا دیتے ہیں۔ میر عثمان علی خان نے کہا کہ ہم اپنی زندگی میں مختصر اضافہ کرنے کے لئے شاہی خون میں ملاوٹ نہیں ہونے دیں گے اس کے بغیر مرنا قبول ہے اور نظام حیدر آباد خون لگنے کے باعث دم توڑ گئے۔ جان جا رہی ہو تو تکبر، تفاخر، انا اور غرو سب کچھ خاک نشیں ہو جاتا ہے۔ پوری زندگی انا، نرگسیت اور خود پرستی کے گھوڑے پر سواری کرنے والے ہمارے آمر اور جمہوری حکمران موت کو دور سے دیکھ کر بلکنے اور معافی مانگنے لگتے ہیں اس لئے کہ میر عثمان کی طرح وہ خاندانی نہیں ہوتے۔
آخری نظام حیدر آباد دکن، میر عثمان علی خان کی جائیداد کا کوئی حد و حساب نہیں۔انکے بے تاج جانشین اس دولت کو دونوں ہاتھوں سے اس لئے اُڑا رہے ہیں کیونکہ انکے ہاتھ ہی دو ہیں۔آصف جاہ ہشتم مکرم جاہ نے حیدر آباد دکن کے محلات کی رونقیں چھوڑ کر آسٹریلیا میں گوشہ تنہائی میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تو وہاں دو لاکھ ہیکٹر (تقریباً پانچ لاکھ ایکڑ)پر مشتمل بھیڑوں کا فارم خرید لیا۔اس دوران پرتھ میں شاہی محل اور سیرو سیاحت کیلئے بحری جہاز خریدا۔یہ جہازبارودی سرنگوں کا سراغ لگانے کیلئے استعمال ہوتا تھا جسے لگژری شپ میں بدلا گیا۔بھیڑوں کا فارم نہ چل سکا تو سونے کی کان خرید لی۔ اس میں بھی ہاتھ ہوگیا۔ایک مرتبہ ہائیڈرالک کا ایک ڈبہ فارم تک چارٹرڈ جہاز میں منگوایا گیا۔ ہمسائے انہیں شاہ کہہ کر مخاطب کرتے‘ بیس سال میں آمدن اور اخراجات میں عدم توازن سے دیوالیہ ہوئے تو فارم اور محل بیچ کر چپکے سے آسٹریلیا سے نکل گئے۔ آجکل ترکی میں قیام پذیر ہیں جہاں انکی مطلقہ اہلیہ مانولیہ او نور بھی رہائش پذیر ہیں جن کے حق میں32 لاکھ ڈالر کی ڈگری ہو چکی ہے۔ مکرم جاہ نے ایک موقع پر آسٹریلیا میں اپنی پرسکون ”سلطنت“ میں گھومتے ہوئے کہا مجھے اس سے محبت ہے‘ جہاں میلوں تک کھلا علاقہ ہے اور دور دور تک کوئی ہندوستانی نظر نہیں آتا۔
قیام پاکستان کے بعد قوم نے آدھے سے زیادہ عرصہ آمریت کا مزا چکھا اور باقی عرصہ میں جمہوریت کو پرکھا۔ آمروں کو تو کبھی عوام سے غرض ہی نہیں رہی جو عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے۔ ان کی خواہش بھی رہی کہ عوام ان کی نظروں سے دور رہیں۔ مشرف کی مقبوضہ جمہوریت میں حکمرانوں کو عوام کی اُسی طرح پروا نہیں تھی جس طرح کسی بھی آمر کو نہیں ہوتی۔ اس کے بعد عوام نے آصف علی زرداری کے سر پر ہُما بٹھا دیا تو پورے پانچ سال ان کو عوام زہر دکھائی دیتے رہے۔ اس دور کی عوامی مشکلات سے سبھی آگاہ ہیں۔ مسلم لیگ ن نے پی پی پی سے عوام کی نفرت کا فائدہ اٹھایا، اقتدار میں آئے تو آج کے حکمران چاہتے ہیں کہ وہ جو بھی ستم ڈھائیں عوام خاموش رہیں۔ مہنگائی، مسائل اور مصائب و مشکلات کا واویلا کرنے والے دور دور تک نظر نہ آئیں۔ اگر نظر آئیں تو اس کی پروا نہیں کی جاتی۔ مہنگائی کا ریلا سروں کے اوپر سے گزر رہا ہے۔ بجلی و پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اوروہ بھی اندھا دھند جاری ہے اور آج کے حکمران اس میں مزید کی نوید سُناتے رہتے ہیں۔ سوچ رہے ہیں کہ آخری سال مزید موٹر وے بنا دیں گے، میٹروز چلا دیں گے ، نوجوانوں کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپس، سکوٹیز اور سولر لیمپ تھما دیں گے اور مزید 5 سال اپنے نام کرا لیں گے۔ ایسا نہ ہُوا تو جیب، پیٹ اور اکاﺅنٹس اتنے بھر چکے ہیں کہ کسی بھی ملک میں مکرم جاہ جیسی سلنطت تعمیر کرا لیں گے۔ انسان بڑے منصوبے بناتا ہے لیکن کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کب دربدری کا سامنا کرنا پڑ جائے جس کا مزہ آج کے حکمران ایک بار چکھ چکے ہیں، شاید وہ کچھ کم تھا۔