اسحاق ڈار کی زیر صدارت اجلاس، 150 ارب کی ٹیکس مراعات ختم کرنے کی منظوری
اسلام آباد + کراچی (نوائے وقت رپورٹ + این این آئی) وفاقی حکومت نے 150 ارب روپے سے زیادہ کی ٹیکس مراعات، چھوٹ اور استثنیٰ ختم کرنے کی اصولی منظوری دیدی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ مفاہمت کے تحت مختلف شعبوں کو انکم ٹیکس، کسٹم، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی دی جانیوالی چھوٹ کے ایس ار او ختم کر دیئے جائیں گے جبکہ مستقبل میں کسی شعبے کو یا ٹیکس دہندہ کو انفرادی ٹیکسوں کی چھوٹ نہیں دی جائیگی اور ناگزیر صورت میں تمام فریقین کی مشاورت سے کسی شعبہ کو ٹیکسوں کی چھوٹ ملے گی۔ جمعہ کو وزیر خزانہ سینٹر اسحاق ڈار کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں مختلف شعبوں کو ٹیکسوں کی دی جانیوالی چھوٹ کے ختم کرنے کے حوالے سے ایف بی آر حکام نے تفصیلی بریفنگ دی اور ان شعبوں کی نشاندہی کی گئی جہاں سے ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کی جا رہی ہے۔ اجلاس میں رواں مالی سال کے ٹیکسوں کے ہدف کے حصول کیلئے ایف بی آر کی کارکردگی ، نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکسوں کے دائرہ کار میں لانے کیلئے اقدامات کے متعلق بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ رواں سال ایک لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکسوں کے دائرہ کار میں لانے کا عمل مکمل کر لیا جائیگا اور اس ضمن میں ٹیکس نادہندگان کو نوٹس جاری کرنے کا عمل تیزی کے ساتھ جاری ہے اور اسکے ساتھ ساتھ نئے ٹیکس دہندگان کو گوشوارے جمع نہ کرانے پر ٹیکسوں کی ادائیگی کے نوٹس بھی دیئے جا رہے ہیں۔ اجلاس میں یہ بات بھی بتائی گئی کہ بنگلہ دیش میں اپنی صنعتیں منتقل کرنیوالے 80 فیصد سے زیادہ صنعتکار پاکستان کو یورپین یونین کی طرف سے جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے پر اپنی صنعتیں پاکستان واپس منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ بیرون ملک سے اپنی صنعتیں واپس منتقل کے خواہاں صنعتکاروں کو بعض ترغیبات دینے پر بھی غور کیا گیا۔ چار گھنٹے سے زیادہ وقت تک جاری رہنے والے اجلاس میں وزیر اعظم کی ٹیکس مراعات پر سرمایہ کاروں کے ردعمل پر بھی تفصیلی بات کی گئی اجلاس میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ نئی سرمایہ کاری پر ٹیکسوں کی مراعات کے اثرات آنا شروع ہو چکے ہیں۔ آئندہ چھ ماہ کے دوران وزیر اعظم کے پیکیج کے بھر پور اثرات سامنے آئیں گے۔
اسلام آباد (عترت جعفری) ایف بی آر نے پیر کو وزیراعظم محمد نوازشریف کو ٹیکس ایگزامشنز کے خاتمہ کیلئے پریزنٹیشن دینے کی تمام تیاری مکمل کرلی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ پری زنٹیشن دیں گے اور سہ سالہ منصوبے کی منظوری لیں گے۔ باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ ایف بی آر نے سیلز ٹیکس‘ کسٹمز ڈیوٹی‘ فیڈرل ایکسائز اور انکم ٹیکس کے ایگزامشنز کی نشاندہی کرلی ہے جن کی لاگت سینکڑوں ارب روپے ہے تاہم ان میں سے بیشتر کے بارے میں یہ اتفاق رائے بھی پایا گیا کہ انکا افراط زر سے براہ راست تعلق ہے اور ان کو واپس لینے کی صورت میں مہنگائی کا جن کنٹرول سے باہر ہوجائیگا اور یہ حکومت کیلئے کوئی آسان فیصلہ نہیں۔ اس وقت حکومت پنشن کی مد میں 150بلین روپے خرچ کر رہی ہے۔پنشن پر ٹیکس کی چھوٹ موجود ہے۔پنشن پر ٹیکس کی ایگزامشنز کو واپس لینا عملی طور پر ممکن نہیں کیونکہ اس سے لاکھوں بوڑھے افراد متاثر ہوں گے۔ اس طرح ملک میں خام تیل کی درآمد پر جی ایس ٹی کے17 فیصد شرح کی چھوٹ دی جارہی ہے جسے واپس لینے سے تیل کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑیگا۔ بجلی کی کمپنیوں کو ٹیکس ایگزامشن دی جارہی ہے۔یہ چھوٹ بھی واپس لینا ممکن نہیں کیونکہ بجلی کی قیمت میں فی یونٹ اضافہ کرنا پڑے گا جو پہلے ہی 18روپے فی یونٹ تک پہنچ چکی ہے۔ادویات کے سیکٹر پر ٹیکس کی کافی چھوٹ دی جارہی ہیں۔ چھوٹ کی واپسی ادویات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کا باعث ہوگی۔ ذرائع کا کہنا تھا اس طرح پلانٹ اینڈ مشنری کی درآمد‘ عارضی بنیاد پر درآمد اور بعد ازاں برآمد پر بھی ٹیکس کی چھوٹ موجود ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق اقدامات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اسلئے جنوری تا جون کے عرصہ میں انکم ٹیکس‘ سیلز ٹیکس‘ کسٹمز ڈیوٹی اور فیڈرل ایکسائز کے صرف وہی ایگزامشن ختم ہوں گی جو قانون کو مجروح کررہی ہیں۔ کسٹمز کے تحت خصوصی ایس آراوز کو کسٹمز ٹیرف اور جی ایس ٹی کی رعایات کو جی ایس ٹی کے معمول کے نظام کے تحت کر دیا جائیگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوری سے مئی تک کچھ ارب روپے ریونیو لاگت کی حامل ایگزمشنز ختم ہوں گی جبکہ کچھ کو آئندہ مالی سال کے بجٹ میں لایا جائیگا۔