حکومتی سرپرستی کے بغیر فٹبال کی ترقی ممکن نہیں
پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر فیصل صالح حیات کا نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو
سپورٹس رپورٹر
فٹبال پاکستان کا قومی کھیل نہیں تاہم گراس روٹ سے لیکر قومی سطح پر سب سے زیادہ کھیلا جانے والا کھیل ہے لیکن بدقسمتی سے اس کھیل کو حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سرفہرست فنڈز انتہائی محدود ہونے کے ساتھ ساتھ انفرا سٹرکچر کی کمی ہے۔ پاکستان فٹبال کے حوالے سے پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر سید فیصل صالح حیات کے ساتھ خصوصی نشست ہوئی جس میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ آٹھ نو سال میں پاکستان فٹبال کو جتنی ترقی دی ہے ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج الحمدللہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے پاس رجسٹرڈ کھلاڑیوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ماضی میں پاکستان ٹیم کی بین الاقوامی مصروفیات کا ریکارڈ تک نہیں ہوتا تھا۔ فیصل صالح حیات کا کہنا تھا کہ جب سے عہدہ سنبھالا ہے۔ میری اولین ترجیح ایک ہی رہی ہے جس میں فیفا اور اے ایف سی میں پاکستان کے بہتر تعلقات قائم کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں پاکستان کی نمائندگی کرانا بھی تھا۔ آج پاکستان فیفا اور اے ایف سی کی مختلف کمیٹیوں میں شامل ہے اور کئی ایک کمیٹیوں میں ہماری تجاویز کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ موجودہ قومی ٹیم میں چار سے پانچ پاکستانی نژاد یورپین کھلاڑی نمائندگی کرتے ہیں۔ جب سے یہ کھلاڑی ہماری ٹیم میں آ کر کھیلنا شروع ہوئے ہیں ہمارے کھلاڑیوں کے ٹیلنٹ میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، ان کے کھیل میں بھی بہتری آئی ہے۔
صدر پی ایف ایف کا کہنا تھا کہ ہم نے سابق کھلاڑیوں کو ضائع نہیں کیا بلکہ انہیں فیفا اور اے ایف سی کے کوچنگ کورس کرا کے مختلف ٹیموں کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے، کوئی کھلاڑی ایسا نہیں ہے جس کے پاس کوئی اسائنمنٹ نہ ہو۔ پاکستان میں جاری پریمئر لیگ میں شامل ٹیموں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اے ایف سی کوالیفائیڈ کوچز کی خدمات حاصل کریں۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن کی اس وقت زیادہ توجہ یوتھ پر ہے جس میں انڈر 13، انڈر 15، انڈر 17 اور انڈر 21 شامل ہیں، اس سطح پر پاکستان کے پاس اچھے کھلاڑی موجود ہیں جو بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ صدر پاکستان فٹبال فیڈریشن فیصل صالح حیات کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے پاس انفرا سٹرکچر کی کمی ہے جس کو مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہم نے فیفا سے پاکستان کے لئے 8 گول پراجیکٹ منظور کرائے جس میں 5 مکمل ہو چکے ہیں جبکہ 2 پراجیکٹ زیر تعمیر ہیں اور پنجاب میں ایک گول پراجیکٹ کے لئے حکومت پنجاب کو درخواست دے رکھی ہے کہ وہ ہمیں اس گول پراجیکٹ کے لئے جگہ مہیا کرے۔ امید ہے کہ ہماری درخواست پر غور کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گول پراجیکٹ اصل میں اکیڈمیز ہیں جہاں پر کھلاڑیوں کو رہنے کے ساتھ ساتھ کوچنگ، ٹریننگ اور فزیکل گول پراجیکٹ بین الاقوامی معیار کے ہیں۔ اس وقت لاہور کے علاوہ کراچی، سکھر، جیکب آباد، ایبٹ آباد، پشاور اور کوئٹہ میں گول پراجیکٹ بن چکے ہیں۔ اگر پنجاب میں ملتان اور اس کے پاس پنجاب حکومت ہمیں جگہ دے دے تو وہاں بھی فٹبال کا کھیل ترقی کر سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں صدر پی ایف ایف کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت رینکنگ میں کم درجے پر ہے جس کی ایک وجہ پاکستان کی انٹرنیشنل میچز کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے مالی وسائل بھی کم ہیں، فیفا اور اے ایف سی ہمیں جو گرانٹ دیتی ہے وہ مختلف پراجیکٹس کی مد میں دیتی ہے جس کو کسی دوسرے مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ عام لوگوں کا تاثر ہے کہ فیفا اور اے ایف سی سے ملنے والی امداد سے پاکستان فٹبال فیڈریشن عیاشیاں کر رہی ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ایف ایف اپنی مارکیٹنگ سے بھی فنڈز کو جنریٹ کرتا ہے جس کی مدد سے فٹبال کی ملک میں سرگرمیوں کو چلایا جا رہا ہے۔
صدر پاکستان فٹبال فیڈریشن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی کھیل ہمارے ملک میں اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہو گا۔ بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکومت کی ترجیحات میں سپورٹس نہیں ہے، میری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ کھیلوں کے فروغ کے لئے اقدامات کرے اس سے بین الاقوامی سطح پر ملک کا سوفٹ امیج دنیا میں جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2003ءمیں جب ملک میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت تھی اس وقت پاکستان فٹبال کے لئے حکومت سے کافی مدد ملی تھی اسی وقت پنجاب فٹبال سٹیڈیم میں فلڈ لائٹس لگوائی تھیں۔
فیصل صالح حیات کا کہنا تھا کہ پاکستان ایشیا کے ان تین ملکوں میں ہے جہاں فٹبال قومی کھیل نہیں ہے جبکہ ایشیا کے دیگر ممالک میں فٹبال ان کا قومی کھیل ہے۔ مالدیپ کی مثال دیتے ہوئے صدر پی ایف ایف کا کہنا تھا کہ اس کا فٹبال کا سالانہ بجٹ 30 کروڑ روپے ہیں جبکہ پاکستان مالدیپ سے کئی گنا بڑا ملک ہے لیکن اس کا سالانہ بجٹ 6 کروڑ روپے ہیں۔ پاکستان سپورٹس بورڈ سے فٹبال فیڈریشن کو سالانہ کتنی گرانٹ ملتی ہے اس سے ایک شہر کی ایسوسی ایشن اپنی سرگرمیاں نہیں چلا سکتی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کھیلوں کو ترجیحی بنیادوں پر لے تاکہ بین الاقوامی سطح پر ہمارے کھلاڑی پرفارم کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، پی ایف ایف نے اسے نکھارنے کے لئے ملک بھر میں فٹبال کی سرگرمیاں جاری کر رکھی ہیں جس میں پاکستان پریمئر لیگ سب سے بڑا ایونٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جن محکموں کی فٹبال ٹیمیں نہیں ہیں یا ختم ہو گئی ہیں انہیں بحال اور قائم کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست سے ہٹ کر پاکستان میں فٹبال کی ترقی کے لئے کام کر رہا ہوں انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان فٹبال ایشیا میں اچھا نام بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں صدر پی ایف ایف کا کہنا تھا کہ میری خوش قسمتی یہ بھی رہی ہے کہ فٹبال فیڈریشن میں مجھے اچھے ساتھیوں کا ساتھ ملا ہے جن میں سیکرٹری کرنل (ر) احمد یار لودھی، مارکیٹنگ میں سردار نوید حیدر، ڈومیسٹک میں پرویز سعید میر، کرنل (ر) فراست علی و دیگر شامل ہیں یہ لوگ بھی فٹبال کے فروغ کے لئے دن رات میرے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہم نے کھیل کی ترقی کے لئے اپنے کوچنگ اور آفیشلز کو بھی فیفا اور اے ایف سی کے کورسز کرائے ہیں جس کی وجہ سے ان کے معیار میں بھی بہتری آئی ہے۔