حکومت تیل تلاش کرنے والی کمپنیوں سے وصول شدہ فلاحی فنڈ کا استعمال یقینی بنائے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (اے پی پی) سپریم کورٹ نے پیٹرول وگیس تلاش کرنیوالی کمپنیوں کی جانب سے متعلقہ علاقوں میں فلاحی منصوبوں پر مقررہ رقوم خرچ نہ کرنے کے حوالے سے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل پٹرولیم کنسیشنز (پی سی) اور متعلقہ صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 19/A میں دیئے گئے طریقہ کارکے مطابق ای اینڈ پی کمپنیز کے ذریعے فلاحی و سماجی فنڈز اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ انکے موثر استعمال اور مانیٹرنگ کو یقینی بنائیں فلاح و بہبود کے منصوبوں میں متعلقہ مقامی اور ضلعی حکومتوں کو بہرصورت شامل کر کے کمیونٹی کی شرکت کو یقینی بنانے علاقے میں کم ازکم ششماہی بنیاد پر ایک بار کھلی کچہری کا انعقادکیا جائے اور فنڈز کے استعمال میں عوامی شرکت کیلئے مقامی اخبارات میں منصوبو ں کی تشہیر کی جائے۔ عدالت نے ڈی جی پی سی کو مزید ہدایت کی کہ وہ مختلف ای اینڈ پی کمپنیوں کی طرف سے عائد ذمہ داریوں، بونسز اور دیگر فنڈزکے اکاؤنٹس کی ایک جامع رپورٹ مرتب کر کے اس میں ضلع وائز قابلِ ادا رائلٹی کے ممکنہ اعداد و شمار شامل کریں اور اسے عدالت میں پیش کریں۔ 45 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ای پی کہلائی جانے والی کمپنیاں جو تیل کی پیداوار اور قدرتی گیس کی تلاش میں مصروف ہوتی ہیں۔ معاہدوں کی رو سے ایک مخصوص رقم متعلقہ علاقے کی فلاح پر خرچ کرنے کی پابند ہیں۔ اس بارے میں DG پی سی نے دوران سماعت عدالت کو بتایا کہ کئی سالوں میں ان معاہدوں اور شرائط کی وجہ سے کمپنیوں سے لاکھوں امریکی ڈالرز اکٹھے کئے جاچکے ہیں۔ اسکے ساتھ ان کمپنیوں کی طرف سے خام تیل کی رائلٹی کی مد میں کل قابلِ ادا رقم 160 بلین روپے سے زائد ہے اس طرح مختلف شہروں میں تلاش کی گئی گیس کی مدمیں جمع شدہ رقم 293 بلین روپے ہے۔ فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ یہ معاملہ چیف جسٹس کی ایک تقریب میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کے موقع پر صدر ٹنڈو آدم بار ایسوسی ایشن عبدالحکیم کھوسو نے اٹھایا تھا اوراس امرکی جانب توجہ دلائی تھی کہ ضلع (سانگھڑ) میں تیل اور گیس کے پیداواری ذخائر ہیں لیکن تیل کمپنیاں قانون اور حکومت کے ساتھ طے شدہ شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔