آندھی آئے یا طوفان ، ہم نے اس پار جانا ہے
آندھی آئے یا طوفان ، ہم نے اس پار جانا ہے
جنرل ضیا ءالحق کے دورِ مطلق العنانی میں امریکہ نے پاکستان کو افغانستان میں روس کے ساتھ اُلجھا دیا تو دنیا بھر سے امریکی حمایت یافتہ مسلمان جنگجو اسامہ بن لادن کی زیر قیادت پاکستان کے علاقہ جات فاٹا (FATA) اور (PATA) پاٹا میں افغانستان کی سرحدوں سے ملحقہ جگہوں پر جمع ہوئے۔ یہ جنگجو مجاہدین کہلائے اور افغانستان میں روس کیخلاف کارروائیاں کرتے رہے۔ بتدریج ان کا پاکستان میں قیام مستقل ہوتا گیا۔ یہ غیر ملکی باشندے اکثر و بیشتر مقامی باشندوں کے ساتھ چیرہ دستیاں کرتے رہتے تھے مگر حکومت پاکستان انہیں نظر انداز کرتی رہی۔ 1980ءمیں راقم جنرل ہیڈ کواٹر میں تعینات تھا تو ایک قریبی دوستی میجر خالد اورکزئی نے گفتگو کے دوران یاس بھرے انداز میں کہا کہ بگٹی ہمارے علاقہ میں غیر ملکیوں نے بڑا اودھم مچایا ہُوا ہے۔
1987ءمیں روس نے یکطرفہ طور پر افغانستان سے اخراج کیا تو امریکہ نے بھی غیر ملکی مجاہدین کی معاشی حمایت ختم کر دی۔ افغانستان میں امریکی مفاد کے رکھوالوں، برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمت یار جیسے لوگوں کی حکومت بنی رہی۔ جنرل ضیا ءالحق اپنے رفقاءسمیت کیفر کردار کو پہنچ گئے، انکے آقا¶ں نے انہیں پُراسرار ہوائی حادثے کے ذریعے Dispose off کیا مگر فاٹا اور پاٹا کا درد ختم نہیں ہُوا اور انہیں جو زخم ملتے رہے تھے اب ناسُور اور کینسر بن چکے ہیں تھے۔ چیچن، ازبک، تاجک، ترکمانی، مصری اور لیبیائی وغیرہ جنگجوﺅں کی اکثریت نے مستقل سکونت اختیار کر لی اور اب ان کی دوسری نسل موجود ہے۔ حکومت پاکستان کی ہزار کوششوں کے باوجود یہ لوگ رجسٹریشن کروا کر پُرامن شہری بن کر نہیں رہے مگر آزاد اور پُراسرار طرزِ زندگی گزارتے رہے۔
جنرل پرویز مشرف نے فوجی بغاوت کے ذریعے پاکستان کی حکومت پر قبضہ کیا اور جمہوری حکومت کے رہنماﺅں کو قید و بند اور جلاوطنی کی سزائیں دینے سے فارغ ہو کر پہلی فرصت میں پاکستان کو امریکی مفاد کی جنگ میں جھونک دیا تو ان چیچن، ازبک، تاجک اور دیگر جنگجوﺅں کی اکثریت پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ڈالروں کی نوازشیں کیں، انہیں جدید حربی اسلحہ دیا، سیٹلائٹ مواصلاتی سازو سامان اور رات کو دیکھنے والے آلات فراہم کئے اور پاکستانی فوج کیخلاف مکمل طور پر مسلح کیا اور اس کیخلاف گوریلا جنگ میں مصروف رکھا۔ علاوہ ازیں پاکستان کے اندر مخصوص اہداف دے کر انہیں استعمال کیا گیا۔ حساس اداروں پر حملوں میں ان افراد کو استعمال کیا جاتا رہا۔ کراچی میں نیول ائیر بیس، کامرہ ائیر بیس، لاہور میں نیول ڈیفنس کالج، حساس ادارے کی تنصیب اور ایف آئی اے کے دفتر پر حملہ میں غیر ملکی جنگجو ملوث پائے گئے مگر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ان غیر ملکی جنگجوﺅں کا سدباب نہیں کیا گیا اور نہ ہی پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے جمہوری دور میں ان پر آہنی ہاتھ ڈالا گیا۔ جنوبی وزیرستان میں اعظم ورسک میں طاہر یلدوف کی سربراہی میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) کے نام سے منظم ہوئی۔ انہوں نے جنوبی وزیرستان میں اپنی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ یہ لوگ مقامی وزیر قبائل کے دیہات اور دیگر آبادیوں اور بستیوں میں گھس کر سوشل جرائم میں ملوث رہتے۔ مقامی وزیر قبائل ازبکوں کی کارروائیوں سے نالاں تھے، آخر تنگ آ کر 29 مارچ 2007ءسے 2 اپریل 2007ءتک شدید لڑائی ہوتی رہی۔ آخر ازبکوں کو سرحد پار افغانستان میں دھکیل دیا گیا۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے ایک مثال پیش کی گئی ہے۔
ابھی جبکہ جنرل ضیا ءالحق اپنے رفقاءسمیت صفحہ ہستی سے مٹ چکے، جنرل پرویز مشرف مکافاتِ عمل سے گزر چکے اور یہ تمام کردار قصہ¿ پارینہ بن چکے ہیں۔ ملک میں سول قیادت، عدالتی قیادت اور عسکری قیادت بھی تبدیل ہو چکی ہے اور نئی قیادت کی آپس کی ہم آہنگی ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان میں آباد ازبک جنگجوﺅں کی خرمستیوں اور انکے پاک فوج پر حملوں کا سدباب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”امن کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور دہشت گردوں کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینگے۔“ ہماری افواج نے شمالی وزیرستان میں جو کارروائی کی ہے وہ دراصل ازبک اور دیگر غیر ملکی باشندوں/ حملہ آوروں کیخلاف کی ہے۔ یہ لوگ پاکستانی شہری نہیں ہیں اور امن عمل کا کسی صورت میں حصہ نہیں ہیں۔ اس لئے ان لوگوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے سے امن عمل پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ اس وقت پاکستان کو کئی قسم کے چیلنجز مثلاً معیشت کی تباہی، مغربی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کیساتھ ذلت آمیز رویہ، ملک کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیروزگاری، معاشرتی بُرائیوں کو بڑھاوا دینے کے بے لگام ذرائع کی دیدہ دلیریاں اور معاشرتی گراوٹ کی شدت وغیرہ کا سامنا ہے۔ اسکے ساتھ ملک میں بیش بہا معدنی وسائل، سونا چاندی، تانبہ لوہا، کرومائیٹ، کوئلہ، گیس، تیل وغیرہ کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور ان کی کان کنی کرنے اور نکالنے اور قابلِ استعمال بنانے کی جدید ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والے باصلاحیت اور تجربہ کار انجینئر، ٹیکنیشن، سائنسدان اور افرادی قوت 80 ہزار سے بھی زیادہ تعداد میں موجود ہے۔ یہ باصلاحیت اور محنتی افراد اس بیش بہا دولت کو قلیل مدت میں زمین کا سینہ چیر کے باہر نکال کر پراسس کر کے قابل استعمال اور قابل تجارت بنا سکتے ہیں۔ اس دولت کو استعمال کر کے ملک کی معاشی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے مگر حکومت تساہل سے کام لے رہی ہے اور اپنے وسائل سے ان معدنیات کو نکالنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ شاید غیر ملکیوں کے حوالے کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں وگرنہ اب تک ان معدنی وسائل کو بروئے کار لایا جا چکا ہوتا۔
ملک میں لامحدود آبی وسائل بھی موجود ہیں جن کو ڈیم بنا کر استعمال کیا جائے تو چاروں صوبوں کی سوا دو کروڑ ایکڑ قابل کاشت بنجر زمین زیر کاشت لا کر لاکھوں خاندانوں کو باعزت روزگار مہیا کیا جا سکتا ہے اور ملکی معیشت میں انقلابی بہتری آ سکتی ہے۔ ڈیم کے ساتھ ہائیڈرو پاور جنریشن کی بدولت سستی بجلی فراہم کر کے عوام کا معیارِ زندگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ انڈسٹری کو سَستی بجلی مہیا کرنے سے تیار اشیاءبھی کم لاگت کی ہوں گی۔ انڈسٹری مالکان کیلئے اپنے مزدوروں اور کارکنان کی اُجرت بڑھانے میں بھی آسانی ہو گی۔ ایک طرف مسائل گھمبیر ہیں تو دوسری طرف ربّ العزت نے بیشمار اور بیش بہا وسائل بھی عنایت کئے ہوئے ہیں۔ عوام یاس و حسرت سے دیکھ رہے ہیں اور توقع کر رہے ہیں اور بلند آواز میں پکار رہے ہیں کہ چاہے آندھی آئے یا طوفان ، اے مانجھی ہم نے اس پار جانا ہے، ہمیں اس پار لے جا!