آج کا پاکستان ۔۔ مسائل اور حکمران
آج کا پاکستان ۔۔ مسائل اور حکمران
2013ءکے آخر میں پاکستان جن گوناگوں مسائل میں گھرا ہوا ہے ان سے کون واقف نہیں ہے۔ امیر‘ غریب‘ تعلیم یافتہ‘ غیر تعلیم یافتہ‘ چھوٹا بڑا سب کے سب بے بسی کی تصویر بنے‘ غیب سے کسی معجزہ کے منتظر ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب چینی کی قیمت میں پچیس پیسہ فی کلو کا اضافہ کیا گیا تو گورنر ہاﺅس سے ناصر باغ تک کے میلوں لمبے راستے پر سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ ایوب خان جیسے حکمران کو عوام نے دھول چٹا دی‘ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ کشمیر کا مسئلہ ہو‘ فلسطین کا مسئلہ ہو یا بھارت کی زیادتیوں کا‘ بلاتاخیر عوام کا ردعمل سامنے آ جاتا تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حق سچ کے لئے قربانی سے گریز کیا گیا ہو یہی وجہ تھی کہ پورے ملک میں بلاتخصیص رنگ و نسل ایک جیسا ردعمل سامنے آتا تھا۔ قائداعظم کی وفات سے لے کر جونا گڑھ مانا دور‘ حیدر آباد دکن‘ رن آف کچھ‘ کشمیر‘ سیاچین اور بھارت کو ”لیاقت نہرو معاہدہ“ کے ذریعہ پاکستان کے اس حق کو تسلیم کرنا پڑا تھا کہ پاکستان بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر دنیا بھر میں آواز اٹھا سکتا ہے۔ بھارت کا آبادی کے لحاظ سے بڑا ہونے اور عالمی طاقتوں کی اسلام دشمنی اور تمام تر منفی حربوں کے ناکام ہونے پر کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ لے کر گیا عالمی ادارے کو ضامن بنا کر کشمیریوںکے حق خود اختیاری کو تسلیم کیا اور رائے شماری کا وعدہ کیا جو آج تک پورا نہیں ہوا حتیٰ کہ 1965ءمیں کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ پاکستانی افواج اور اداروں نے اپنے سے دس گناہ بڑے ملک بھارت کو ہر میدان میں للکارا اور اسے قدم قدم پر دوٹوک جواب دینے والا پاکستان جو آج کسمپرسی، بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ حکمران کرپشن، نالائقی اور نااہلی کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں بے شرمی کی تمام حدیں پار کر چکے ہیں جس ملک میں ”پیپر پِن“ تک نہیں بنتی تھی دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایٹمی طاقت بنا۔ سٹیل ملز‘ پی آئی اے‘ ریلوے اور دوسرے بے شمار ادارے پاکستان کو اقوام عالم میں سربلند کئے ہوئے تھے۔ کرنسی کی قدر اتنی کہ ایک پاکستانی روپے کے عوض بھارت کا ڈیڑھ روپیہ ملتا تھا۔ عوام خوش حال تھے۔ مہنگائی کا شور پڑوسی ملک بھارت سے آیا کرتا تھا۔ قوم پر ناقابلِ برادشت قرضے نہیں تھے۔ مذہبی و سماجی تفریق نہ ہونے کے برابر تھی۔ پاکستان دشمن قوتوں نے آہستہ آہستہ صورتِ حال کو سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کیساتھ اور مسلسل سرمایہ کاری کے ذریعہ تبدیل کیا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اس کا بڑا ثبوت ہے۔ ہمارے حکمران اور برسراقتدار طبقات نے عوام سے ہٹ کر اپنی علیحدہ دنیا بسا لی ہے۔ کرپشن‘ لوٹ مار اور اپنا گھر بھرنے کے بعد لوٹی دولت بیرون ملک منتقل کرنے کی دوڑ لگی ہے جو آج بھی جاری ہے جس کی وجہ سے عوام کا سانس لینا دوبھر ہو گیا ہے۔ بھارت کی من مانیاں دن بدن بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ ادھر ہمارے حکمرانوں کا بس نہیں چل رہا کہ وہ کیسے اس عظیم ملک اور اسکے عوام کو بھارت کا غلام بنا دیں‘ کھلم کھلا بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تو عوام نے بھارت سے دوستی کامینڈیٹ دیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے الیکشن مہم میں یا منشور میں اس بات کا ذکر تک نہیں ہے۔ تجارت جس میں بھارت کا فائدہ ہی فائدہ ہے، شروع ہو چکی ہے، اربوں روپے کا ماہانہ فائدہ بھارت اٹھا رہا ہے۔
گزشتہ جمہوری دور میں وزیراعظم گیلانی صاحب نے ڈی جی آئی ایس آئی کو حکم دیا تھا کہ بھارت جا کر صفائی پیش کریں کہ بمبئی میں ہونے والے واقعات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے گویا پاکستان کی دونوں سیاسی پارٹیوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں فوج کے ہاتھ پیر باندھ دیئے جائیں تاکہ بھارت اور امریکہ پاکستان کیساتھ جو جی چاہے کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں فوج جب بھی آئی ہے اس کو بلانے والے اور کوئی نہیں یہ سیاست دان ہی تھے پھر ان فوجی حکمرانوں کیساتھ حکمرانی میں شامل ہوتے رہے ہیں اور وزیر بنتے آئے ہیں۔ پھر بہت جلد فوجی حکمرانوں کو بھی سیاستدان اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف دور کو دیکھئے کس پس منظر میں وہ آئے قومی اسمبلی میں شریعت کے نام پر کیا ہوا۔ چند منٹ میں کون سا قانون منظور کیا گیا تھا! سینٹ میں اکثریت مل جاتی تو کیا ہوتا لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین بٹ صاحب کو بازار سے خرید کر بیچ لگا کر چیف آف آرمی اسٹاف بنا نے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سابق آرمی چیف جنرل کیانی صاحب نے جس وجہ سے تدّبر کا مظاہرہ کیا ا س کی وجہ جمہوریت سے اُنکی محبت نہیں کچھ اور ہے آنیوالے دنوں میں سامنے آ جائیگی۔ ”دہشت گردی‘ ‘ اور اسکے پیچھے چھپی پاکستان دشمن طاقتیں صاف نظر آ رہی ہیں اسلام اور شریعت کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اب اپنے منطقی انجام کوپہنچنے جا رہے۔ پاکستان کے اندر پاکستانی طالبان کے نام سے جو لوگ ہتھیار اٹھاکر بے گناہ عوام کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کرچکے ہیں، جو ملک کے آئین کو نہیں مانتے ان سے کیا مذاکرات ہوں گے؟ جو لوگ مذاکرات کا راگ الاپ رہے ہیں وہ بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ملک میں بعض علاقوں میں بیرونی طاقتوں نے بغاوت کی سی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے جس طرح سوات میں حکومت نے اپنی رٹ بحال کی تھی یہاں بھی ایسا ہی ایکشن ضروری ہے۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ دہشت گرد بڑی تعداد میں عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں، جج چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وزیراعظم نے اس کا حل یہ تجویز کیا ہے کہ جج نقاب پہن کر سماعت کریں اور ایک صوبے کے مقدمات دوسرے صوبے میں چلائے جائیں وغیرہ جبکہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو اس کا حل آئین میں موجود ہے آپ آئین پر عمل کریں ضرورت ہو تومزید قانون سازی بھی کریں اور دہشت گردی کے تمام مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں کروائیں۔ حکومت کی رٹ بحال کرنے کےلئے عملی اقدامات کرنے پڑیں گے تقریباً 9 ڈویژن فوج کی برابر پنجاب میں پولیس فورس موجود ہے۔ مکمل نیٹ ورک گلی محلے تک میں موجود ہے، اربوں کھربوں رویہ خرچ ہو رہا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات.... قوم اور ملک منافقت کی گرفت میں ہیں، کہتے ہیںکہ اللہ تبارک تعالیٰ بھی ان ہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے پاکستانی طالبان سے مذاکرات کی آڑ میں سات آٹھ مہینے تو ضائع کر دیئے ہیں دیکھیں مزید کتنا وقت اور لگے گا؟ 2014ءآگیا امریکہ جس مقصد سے افغانستان میں اتنا عرصہ رہا وہ مقصد حاصل نہ کرسکا اب مزید دس سال وہاں رہنے کیلئے معاہدہ کر رہا ہے اس کا اصل مقصد تو چین کے خلاف بھارت اور پاکستان کو صف آرا کرنا ہے اور وہ بھی بھارت کی شرائط پر امریکہ نے آجکل ایران کے ساتھ دوستی اور تعاون کی باتیں شروع کر رکھی ہیں۔ اس گٹھ جوڑ کا مقصد بھی چین اور پاکستان کے تعاون اور دوستی کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس سنگین صورتحال میں جس کا ملک کو سامنا ہے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کیلئے جنرل پرویز مشرف کے 3 نومبر کے اقدامات پر واویلا مچانے کا کیا مقصد ہے؟ ایک نیا پینڈورا بکس کھولنے کے دو مقاصد ہوسکتے ہیں۔ (۱) سنگین صورتحال سے لوگوں کی توجہ ہٹانا۔ (۲) فوج کو یہ احساس دلانا کہ اب سول حکومت جو چاہے کرے تم نے صرف حکم کی تعمیل کرنا ہے! دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ مسائل پر حکومت کی ناکامی فوج کو طاقتور بنائے گی اور پھر وہی تصادم ہو کر رہے گا۔ جو پہلے ہوتا آیا ہے۔ جہاں تک جنرل پرویز مشرف سابق صدر کا تعلق ہے صدر نے آئین میں طے شدہ طریق کار کے مطابق وزیراعظم کی درخواست پر ایمرجنسی لگائی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا اور ایمرجنسی ختم ہوگئی پھر یہ آرٹیکل 6 کہاں سے آگیا۔ جب فوج نے 12 اکتوبر کو آئین توڑا اس وقت سپریم کورٹ اسے چیلنج کرتی آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرتی چوہدری افتخار جو اب غازی بننے کوشش کر رہے ہیں PCO کے تحت حلف نہ لیتے اور اپنے اس وقت کے چیف جسٹس کو روکتے اور یہ کہ جنرل پرویز مشرف نے تو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت نہیں مانگی تھی‘ سپریم کورٹ نے کیوں دی؟ چودھری افتخار صاحب 6 سال تک کیوں خاموش بیٹھے رہے؟ یاد رہے یہ وہی چودھری افتخار ہیں جنہوں نے چیف جسٹس بننے کے بعد باوردی صدر مملکت جو اس وقت چیف ایگزیکٹو بھی تھے کے دفتر میں پیش ہو کر سپریم کورٹ کی ایک سال کی کارکردگی کی ایک رپورٹ جنرل پرویز مشرف کو پیش کی تھی جس کی تصویریں اخبارات میںچھپی تھیں!