• news

اتوار ‘ 25 صفر المظفر 1435ھ ‘29 دسمبر 2013ئ

اتوار ‘ 25 صفر المظفر 1435ھ ‘29 دسمبر 2013ئ

شمالی وزیرستان میں آپریشن سے دہشت گردی ختم نہیں ہو گی : حمید گل !
اس کا مطلب تو یہ ہُوا کہ اب دہشت گرد لاہور، کراچی، اسلام آباد کا اطمینان سے رُخ کرینگے تو پھر ٹھیک ہے حکومت انکے مشورے پر آپریشن بند کر دے اور فوج کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے آرام کرنے دیا جائے۔ اس طرح ہمارے دہشت گرد بھائیوں کو بھی زیادہ زحمت نہیں ہو گی اور وہ آسانی سے بلا کسی رکاوٹ کے کراچی، کوئٹہ، پشاور، کراچی، حیدر آباد، سبی ملتان، سکھر میں جہاں چاہیں جو چاہیں کرتے پھریں گے یوں باہمی حُسنِ اتفاق سے ”ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا“ آئیگا۔ملک سے دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ، خودکش حملے، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری خود بخود ختم ہو جائے کیونکہ آپریشن بند ہونے کے بعد یہ سارے کام بھی بند ہو جائینگے اور خیر سگالی کی لہر پورے ملک میں پھیل جائیگی اور جب یہ سب کام باہمی اتفاق رائے سے ہوں گے اس لئے انہیں غلط قرار نہیں دیا جائیگا۔ اب کوئی حمید گل سے پوچھے کہ جناب اس آپریشن اور پکڑ دھکڑ کے باوجود کون سا شہر یا گاﺅں ہے جہاں ہمارے یہ دہشت گرد بھائی نزولِ اجلال نہیں فرماتے اور من مانی کارروائی نہیں کرتے۔ اتنی پابندیوں کے باوجود جب یہ اپنے مہربانوں اور چاہنے والوں کے تعاون سے یہ سب کارروائیاں احسن طریقہ سے انجام دے رہے ہیں اگر یہ آپریشن نہ ہُوا تو اسکے نتیجہ میں کیا منظر ہو گا اس مُلکِ پاکستان کا۔ اس کیلئے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بلکہ حمید گل اور ان جیسے مسلح گروپوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے ”موت کا منظر“ ۔ ”قیامت کا منظر“ اور ”مرنے کے بعد کیا ہو گا“ جیسی کتابوں کا خود بھی مطالعہ کر کے عوام الناس کو انکے مطالعے کی طرف راغب کر سکتے ہیں جس میں آنیوالے وقت کی اچھی منظر کشی ہے۔ نجانے کیوں حمید گل کے دل میں محبت کا یہ جذبہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس ملک کی حفاظت کرنے والوں کیلئے بیدار کیوں نہیں ہوتا جو آج بھی کشمیر سے لیکر کراچی تک سرحدوں پر قدم قدم پر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ملک و قوم کی حفاظت کیلئے جانیں نچھاور کر رہے ہیں اور کسی صلہ و ستائش کی تمنا نہیں کرتے اور خود حمید گل کا تعلق بھی تو انہی سے رہا ہے۔ انہیں دہشت گردی کیخلاف کارروائی کی مخالفت کرنے کے بجائے نتیجہ خیز بات چیت کی ڈور ڈالنی چاہیے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
مڈٹرم الیکشن کے مطالبے کی حمایت نہیں کریں گے ! مولانا سمیع الحق !
مولانا سمیع الحق کے اس بیان سے انکے سیاسی شعور کی پختگی ظاہر ہوتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ملک میں بار بار مارشل لاءاور جموریت کی آنکھ مچولی کے کھیل سے ہونیوالے نقصانات کا اندازہ لگا لیا ہے اور اب وہ جان گئے ہیں کہ عوام اور ملک کو درپیش مسائل کا حل ہر الیکشن کے دھاندلی کے شور اور مڈٹرم کے مطالبہ کرنے میں نہیں بلکہ جمہوریت کی گاڑی کو چلنے دینے میں ہے مگر کیا کریں ہماری بعض سیاسی و دینی جماعتوں کو جمہوریت کی بجائے مارشل لاءیا غیر جمہوری حکومتیں زیادہ راس آتی ہیں کیونکہ ان جماعتوں کو عوام میں اپنی حیثیت کا علم ہے اور یہ جانتی ہیں کہ کسی بھی الیکشن میں یہ کتنی سیٹیں جیت سکتی ہیں اور انہیں کتنے فیصد ووٹ پڑ سکتے ہیں۔ اور یہ ”شور مچاﺅ مڈٹرم الیکشن کراﺅ“ کا سیاپا کرنیوالی چند رکنی جماعتیں ہمیشہ کسی بڑی سیاسی جماعت کا دُم چھلا بن کر انہیں دُم کی نوک پر کھڑا کر دیتی ہیں اور تماشہ دیکھتی ہیں۔ یہ تو اس بار شکر ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ہوش آ رہا ہے اور وہ ان پریشر گروپ نما جماعتوں کے چنگل سے نکل آئی ہیں مگر آج بھی کئی بڑی عوامی جماعتوں کیساتھ لگے یہ ”پخ“ شور مچاﺅ تماشہ لگاﺅ مہم چلانے میں پیش پیش ہیں اور ہر الیکشن کے بعد عوام کو یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نجانے کب دھاندلی اور مڈٹرم کا شور جمہوریت کے گلے پر چُھری پھیر دے اور یہ پریشر گروپ جو سب سے زیادہ الیکشن اور جمہوریت کے غم میں گھلے جا رہی ہوتی ہیں یہ سب سے پہلے جمہوریت کے مُردے کو لات مار کر آمریت کو مبارکباد دینے اور اسکی چھتری تلے جا کر دم لیتی ہے۔ انہی جماعتوں کے دم سے ہماری سیاسی زندگی میں رنگا رنگی بھی رہتی ہے ہر قسم کے المیہ اور حربیہ کردار ان جماعتوں میں پائے جاتے ہیں اور عوام بھی روایتی دلچسپی سے ان کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
لاہور سمیت مختلف شہروں میں گیس اور بجلی کی 12 سے 16 گھنٹے لوڈشیڈنگ نے سردیوں میں عوام کا لہو گرما کر رکھ دیا ہے۔ اپنا لہو جلانے کے، خون کے گھونٹ پینے کے سوا رہ کیا گیا ہے عوام کے پاس۔ دال چاول، روٹی سبزی، مرغی، گوشت تو بہت پہلے ہی پہنچ سے بہت دور نکل گئے ہیں اور یہ تمام اشیاءاب ہمارے بجائے ہماری پڑوسی ممالک میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں اور ہمارے حکومتی کمیشن اور سمگلنگ مافیا کی بدولت ان اشیاءکو ہماری مارکیٹوں کی بجائے افغانی اور ایرانی مارکیٹیں زیادہ سوٹ کر رہی ہیں۔ اب اگر ہمارے عوامی نمائندے اور حکومتی کارندے لاکھ سستے بازاروں کا، ہفتہ وار مارکیٹوں کا دورہ کریں ، فرضی نرخ ناموں کا پرچم لہرائیں ”آنیاں جانیاں“ دکھائیں، ان کا سبزیوں، آٹا، چاول، دال، چینی، مرغی، گوشت کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہو گا جب تک یہ اشیاءسمگل اور برآمد ہوتی رہیں گی نرخ یونہی بڑھتے رہیں گے۔بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں جا نکلی، اس وقت تو سردی کا زور ہے اوپر سے گیس بھی کم آ رہی ہے، بجلی اب گرمیوں کے علاوہ سردیوں میں بھی لوڈشیڈنگ کے جلوے دکھا رہی ہے ان حالات میں عوام کا تو خدا ہی حافظ سمجھیں۔ سی این جی بند ہونے سے عوامی ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہونے لگی ہے، بجلی نہ ہونے سے ٹی وی، فریج اور دیگر الیکٹرانک آلات کا استعمال کم ہو رہا ہے۔ فیکٹریاں اور کارخانے پہلے ہی کون سا چل رہے ہیں۔ یوں ملک بھر میں ہر چیز کے استعمال میں حکومتی کفایت پروگرام جاری ہے۔ عوام کو احتجاج کرنے کی بجائے شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہماری حکومت انکے آرام کا کس قدر خیال رکھتی ہے ورنہ کام کام صرف کام بھی کوئی زندگی ہے۔ گھریلو خواتین بھی شکر کریں کہ انہیں بھی حکومتی پالیسیوں کے طفیل کچھ دیر آرام کا موقع ملتا ہے۔ اب ہمیں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے فیوض اور برکات پر بھی نظر رکھنی چاہئے نا کہ ہر وقت اسکی بُرائیوں پر۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭

ای پیپر-دی نیشن