انقلابِ فکر و عمل (۱)
انقلابِ فکر و عمل (۱)
حضرت خنساءبنت عَمَر±و± کا تعلق عرب کے معروف قبےلہ بنو سلےم سے تھا (جو بنوقےس بن غےلان کی اےک شاخ تھی)۔ ےہ قبےلہ اپنی خوبےوں کی بناءپر قبائل عرب مےں امتےازی شان کا حامل تھا۔ اےک موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علےہ وسلم نے اس قبےلہ کی تعرےف کچھ اس طرح فرمائی۔ ”بلاشبہ ہر قوم کی اےک پناگاہ ہوتی ہے اور عرب کی پناہ گاہ بنوقےس بن غےلان ہے۔“ حضرت خنساءکا اصل نام ”تماضر“ تھا لےکن اپنی معاملہ فہمی، چستی اور خوبصورتی کی وجہ سے خنساءکے نام سے معروف ہوگئےں جس کا معنی ہے ”ہرنی“۔ خنساءہجرت نبوی سے تقرےباً 50 سال پہلے پےدا ہوئےں۔ خنساءکے والد عمر وبن الحارث بنو سلےم کے رئےس تھے اور اپنی وجاہت اور ثروت کی بناءپر بڑے اثر ورسوخ کے مالک تھے۔ انکی اولاد مےں دو بےٹے معاوےہ، صخر اور اےک بےٹی خنساءتھےں۔ ان سب کی تربےت بڑے اعلیٰ پےمانے پر ہوئی اور ےہ سب بڑے اعلی خصائل کے مالک ہوئے۔ خنساءکے دو نکاح ہوئے۔ جن سے چار بےٹے پےدا ہوئے لےکن وہ جلد ہی بےوہ ہو گئےں۔ انکے دونوں بھائےوں نے ان کا بہت ساتھ دےا۔ خاص طور پر خنساءاور صخر مےں بڑی مناسبت طبعی تھی اور دونوں بہن بھائی اےک دوسرے سے بڑی محبت کرتے تھے۔ سوئے اتفاق ‘ کہ اےک معرکے مےں ان کا بڑا بھائی معاوےہ ماراگےا اور جلد ہی اےک اور تنازعہ مےں ان کا دوسرا بھائی ”صخر“ بھی شدےد زخمی ہوگےا اور کئی ماہ تک موت وحےات کی کشمکش مےں رہنے کے بعد موت سے ہمکنار ہوگےا۔ صخر بڑا عاقل، شجاع اور خوبصورت نوجوان تھا۔ خنساءکو اسکی موت کا بے حد صدمہ ہوا۔ ےہ غم انکے وجود کی گہرائےوں مےں اتر گےا ہے۔ شدت احساس سے جب ضبط کے بند ھن ٹوٹنے لگے تو اس نے اپنے اظہار کیلئے شاعری کا راستہ اختیار کرلیا ۔ خنساءنے صخر کے فراق میں ایسے دل سوز اور جان گداز مرثیے کہے کہ جنہیں سن کر پتھروں میں بھی گداز پیدا ہوجاتا۔ انکے مرثیوں نے انہیں پورے عرب میں مشہورکردیا۔ بازار عکاظہ میں ایک سالانہ میلا لگتا تھا جس میں قبائلِ عرب کے تمام رﺅساءاور ہر قسم کے ارباب ہنروکمال شریک ہوتے۔ خنساءکو بھی بڑے اصرار سے اس میلے میں بلایا جاتا، لوگ انکے اونٹ کے گردگھیرا ڈال لیتے اور ان سے صخرکا مرثیہ سنانے کی فرمائش کرتے جب وہ محوِ سخن ہوتیں تو اشک و آہ کا ایک طوفان اُٹھ جاتا۔ سخت دل صحرائی فرط رنج والم سے دھاڑیں مارمار کرروتے۔ خنساءصبح و شام صخر کی قبر پر جاتیں اور مرثیہ پڑھتےں۔ یہ غم یہاں تک بڑھ گیا کہ خنساءکی آنکھوں سے بینائی زائل ہوگئی۔ اسی کےفیت غم و اندوہ میں دن گزر رہے تھے کہ فاران کی وادیوں میں ایک آفتاب ہدایت طلوع ہوا اور اسکی روشنی کشاں کشاں خنساءکی تاریک دنیامیں بھی پہنچ گئی۔
دل مےں اترتے حرف سے مجھ کو ملا پتا ترا
معجزہ حرف صوت کا زمزمئہ صدا ترا