• news

بلدیاتی الیکشن کا انعقاد مشکل، لاکھوں روپے مہم پر خرچنے والے امیدوار مایوس

لاہور (سید شعیب الدین) بلدیاتی انتخابات دوسری بار ملتوی ہونے سے غریب امیدواروں کی کمر ٹوٹ گئی۔ جماعتی انتخابات کے فیصلے کے بعد انتخابات ملتوی کئے گئے تو بلدیاتی امیدواروں کو پہلا دھچکا لگا۔ الیکشن ملتوی ہونے کی صورتحال اس وقت پیدا ہوئی ہے جب 2 لاکھ 4 ہزار 899 امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکے تھے۔ جانچ پڑتال کا مرحلہ جاری تھا اور امیدواروں کو یقین ہوچکا تھا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود حکومت الیکشن کرادیگی اور کوئی رکاوٹ آئی تو اس کو دور بھی کیا جائیگا مگر گزشتہ روز عدالتی فیصلے کے بعد حکومت نے جتنی جلدی اسے قبول کیا اور رانا ثناء اللہ نے 6 ماہ سے ڈیڑھ سال التوا کی بات کرکے یہ واضح کیا کہ مارچ میں بھی بلدیاتی انتخابات نہیں ہوں گے تو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار پریشان ہوگئے، وہ اپنی جیت یقینی سمجھ رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کی ابھی 11 مئی کی شکست کے زخم بھر نہیں پائے اور تحریک انصاف بھرپور مقابلہ کرنے کی اہل نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو یہ یقین بھی تھا کہ ضلعی اور ٹائون انتظامیہ کے افسران ان سے الیکشن والے دن بھی ’’تعاون‘‘ کریں گے۔ مسلم لیگی امیدوار بلدیاتی انتخابات کیلئے تیاریاں مکمل کرچکے تھے۔ گلی گلی محلہ محلہ ملاقاتیں اور کارنر میٹنگز جاری تھیں۔ بینرز، فلیکس چھپوائے جاچکے تھے۔ چیئرمین اور وائس چیئرمین کے امیدواروں کا دعویٰ ہے کہ وہ لاکھوں خرچ کرچکے ہیں۔ فیصلے سے ان کا خرچ کیا گیا پیسہ ضائع ہوگیا۔ اب جب دوبارہ نئے سرے سے حلقہ بندی ہوگی تو یونین کونسلوں اور وارڈز کی تمام حدبندیاں بدل جائیں گی اور تشکیل دیئے گئے پینل ختم ہو جائیں گے۔ کچھ انتہائی مایوس امیدواروں کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات حکومت اور اپوزیشن کسی کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں۔ دوسری طرف سرکاری افسروں نے الیکشن ملتوی ہونے پر جہاں سکھ کا سانس لیا، وہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت ’’انتخابی ذمہ داریاں‘‘ عدلیہ کو سونپے، وہی اس سے اچھی طرح عہدہ برآ ہوسکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن