• news

بدھ ‘ 28 ؍ صفر المظفر 1435ھ یکم جنوری 2014ء

 فوج کو مشرف کے دعویٰ کی تردید کرنی چاہئے: خورشید شاہ
 خدا جانے ہمارے ان ناسمجھ مگر نہایت سیانے سیاستدانوںکیا ہوگیا ہے کہ ’’ آبیل مجھے مار‘‘ والے بیانات نہایت تواتر سے جاری کرنے لگے ہیںحالانکہ انہیں پتہ ہے کہ وہ جس ادارے کے بارے میں ’’مخولیا‘‘ بیانات جاری کر رہے ہیں اسکے صرف گھورنے پر ہی یہ تمام سیاستد ان رات کے تاریکی میں جاگتی آنکھوں کے ساتھ انکے در پر جبیں نیاز جھکائے وضاحتیں کرتے پھرتے ہیں۔ بقول جوش…؎
 افسانہ جہنم کے فرشتوںکا چھیڑ
 ارباب وطن کی یاد آتی ہے مجھے
 یہ ہمارے سیاستدانوںکے ماضی اور حال کے بارے میں کون نہیں جانتا کمزور کے سامنے یہ فولاد اور طاقتور کے سامنے یہ موم ہوجاتے ہیں۔ خورشید شاہ کے بیان پر بے ساختہ ایک گھسا پٹا لطیفہ یاد آرہا ہے کہ ایک ’’ میراثی کسی پٹھان کو لڑائی میں گرا کر اسکے سینے پرچڑھ بیٹھا اور زور زور سے رونے لگا لوگوںنے پوچھا ارے بھائی مار اسے روتا کیوں ہے وہ بولا روئوں نہ تو کیا کروں اب یہ اٹھ کر مجھے مارے گا‘‘۔ اب یہ بیان بازی کرنیوالے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں کیوں خاموش تھے۔تب انہیں جمہوریت اور بے نظیر کا خون کیوں یاد نہیں آرہا تھا۔ تڑپا نہیں رہا تھا۔اب اچھے بھلے شریف برادران کو احمق بنانے پر تل گئے ہیں اور چالاک لومڑی کی طرح شیر کو ہلا شیری دیکر اندھے کنویں میں گرانے کے چکر میں لگ رہے ہیں۔اب دیکھنا ہے کہ شریف لوگ ان شاہوں کے چکر میں آتے ہیں یا دور سے ہی سلام کرکے نکل جاتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭
 مشرف فارم ہائوس کے قریب سے 5 بارودی پیکٹ برآمد، آج کل بھی سابق آمر کو عدالت میں پیشی کیلئے جانا ہوتا ہے ایسا ہی کوئی نہ کوئی انہونا واقعہ رونما ہوتا ہے جس کے بعد موصوف کے وکیل عدالت کو بھرپور طریقے سے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں عدالت میں پیشی سے مستثنیٰ قراردیاجائے۔ ان حالات میں سب کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مشرف کی جان کو خطرہ ہے۔اقتدار سے رخصتی کے بعد جب مشرف پاکستان سے باہر گئے تو بہت سے حلقوں نے شکر کا سانس لیا تھا کہ ملک کو بہت سے تفکرات سے نجات ملے گی مگر پھر نجانے کس کے مشورے پر وہ واپس آئے حالانکہ ان کی پیاری راج دلاری ق لیگ کے رہنمائوں سمیت بہت سے حلقوں نے ان کوروکنے کی بھی کوشش کی مگر انہوںنے …؎
 جان بچی سو لاکھوںپائے
لوٹ کے بدھو گھر کو آئے
 کی مثال کو غلط ثابت کرنے کی ٹھان رکھی تھی جسکا نتیجہ آج وہ بھگت رہے ہیں اور اپنے ساتھ اپنے سابقہ ساتھیوں کو ساتھ لیکر نئے کار زار کی تیاری کر رہے ہیں اگر وہ واقعی نیک نیتی سے اپنے ملک میں واپس آئے ہیں انہیں اچھے شہری کی طرح تمام مقدمات میں عدالت کے سامنے جا کر اپنی بے گناہی کا مقدمہ لڑنا چاہئے مگر وہ ہیں کہ اپنے قلعہ نما فارم میں قلعہ بند ہوکر بیٹھے ہیں اور باہر آنے کو تیار نہیں تو کوئی ان سے پوچھے کہ پھر وہ کیا کرنے واپس آئے تھے۔ الٹا انتقام کے نعرے لگا کر فوج کو اپنا طرفدار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غالباً وہ بھول چکے ہیں سابقہ ملازم ریٹائرمنٹ کے بعد عام شہری کی طرح رہ سکتا ہے۔ اپنے ادارے کا نام استعمال کرکے خاک نہیں اڑاتا‘ کہیں وہ یہ بارودی پیکٹ بھی توخود نہیں رکھوا رہے تاکہ دنیا کو اپنی جان کے خطرے کا ہوا دکھاکر وہ اپنی بحفاظت واپسی کیلئے آمادہ کیا جا سکے۔
٭…٭…٭…٭…٭
 لاہور چڑیا گھر کو انتظامیہ کو گیٹ انکم میں 4 کروڑ90 لاکھ سے زائد وصول ہوئے۔
 چلیں شکر ہے کہ انحطاط کے اس دور میں جب ہر محکمہ ہر ادارہ تنزلی کی طرف گامزن ہے کوئی ادارہ تو ایسا ہے جو بہتری اور ترقی کی طرف رواں دواں ہے جسکی آمدن بڑھ رہی ہے اور یہ سب عوام ’’ چڑیا گھر‘‘ سے محبت کا اظہار ہے ۔اس میں چڑیا گھر کی انتظامیہ کا کوئی کمال نہیں ورنہ وہ چڑیا گھر کی آمدنی کیساتھ ساتھ اس میں موجود سہولتوں کو بڑھاتے اور نت نئے جانوروں کو لا کر آباد کرتے مگر عرصہ دراز سے چڑیا گھر میں موجود جانوروں کی اپنی افزائش نسل کی کوشش سے جو اضافہ یہاں کی آبادی میں ہوا حکومت یا چڑیا گھر کی انتظامیہ کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں وہ تو لگتا ہے یہاں بھی کم آبادی والا فارمولا استعمال کرناچاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جلو پارک اور مال روڈ کے چڑیا گھر میں کئی جانور پُر اسرار طورپر غائب ہوجاتے ہیں جن میں ہرن، مور اور شیر کے بچے بھی شامل ہیں یا پُر اسرار طورپر مرجاتے ہیں یا بصورت دیگر آوارہ کتے پنجروں میں گھس کر معصوم جانوروںکو مارڈالتے ہیں اور انتظامیہ بے خبر سوتی رہ جاتی ہے۔ایسے کمائو پوت کی ترقی اور حفاظت ہمارا فریضہ ہے جو لاکھوں افراد کو تفریح مہیا کرتا اور جانوروں سے محبت سکھاتا ہے اسلئے حکومت کو چاہئے کہ اپنی گرتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے ہر بڑے شہر میں ایک سے زیادہ چڑیا گھر کھولے اس طرح اسکی آمدنی سے بجٹ کا اور حکومت کا مالی خسارہ کم ہو۔
٭…٭…٭…٭…٭
نویں جماعت کی طالبہ سے نجی سکول کے استاد کی زیادتی۔ استاد کو طالب علم کا دوسرا باپ بھی کہتے ہیں اور کوئی بے غیرت باپ ہی اپنی بیٹی کیساتھ ایسی گھنائونی حرکت کرسکتا ہے۔ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کی راہ میں اگر سخت تعزیری عمل سے رکاوٹ نہ ڈالی گئی تو ہمارے معاشرے میں اخلاقی پستی کا سلسلہ بند نہیں ہوگا اور ایسے غلیظ لوگ اپنی گھنائونی حرکتوں سے باز نہیں آئینگے۔حکومت بھی اب آنکھیں کھولے اور دیکھے کہ فروغ علم کے نام پر نجی تعلیمی ادارے ہوں یا سرکاری تعلیمی ادارے ان میں کون کون سا جاہل کون کون سی جہالت سکھانے پر مامور ہے اور ان گھنائونے کرداروں کو ان مقدس اداروں سے باہر نکلے اور کڑی سے کڑی سزادے کیونکہ ایک مچھلی سارا تالاب گندا کردیتی ہے اور حکومت علم کے ساگر کو جوہڑ بننے سے بچائے اور سکولوں کالجز سمیت یونیورسٹیوں میں بھی ایسی گندگی پھیلانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائے تاکہ دوسرے بھی عبرت پائیں۔

ای پیپر-دی نیشن