نئے سال میں ابھرتا ہوا نیا سیاسی منظر نامہ
لیجئے ہماری زندگی کا ایک اور قیمتی سال تاریخ کا حصہ بن گیا۔ سال 2013ء سے پاکستانی قوم کی خوش کن امیدیں وابستہ تھیں وہ بھی اپنی موت آپ مرگئیں۔ مشرف رجیم سے نجات پاکر قوم نے جب خوشی خوشی 2008ء میں جمہوریت بحال کی تو اسے تب بھی توقعات تھیں کہ ڈکٹیٹر چونکہ مسلط ہوتا ہے اس لئے اسے عوامی مسائل کا نہ ادراک ہوتا ہے اور نہ وہ مسائل حل کرنے کی شعوری کوشش کرتا ہے۔ اس نے کونسا اگلی مرتبہ کشکول لے کر عوام کے پاس ووٹ کے لئے جانا ہوتا ہے اس لئے بجا طور پر لوگ جمہوری سیاسی پارٹیوں پر اعتماد کرتے رہے ۔ چنانچہ عوام کی امنگوں کے برعکس فرسودہ انتخابی نظام سے ایک مرتبہ پھر زرداری صاحب برآمد ہوئے۔جن کی دھیمی اور جوڑ توڑ کی سیاست نے قوم کو کرپشن اور مہنگائی کے طوفان سے دوچار کر دیا۔ پورے پانچ سال میں توانائی کے ملک گیر بحران کو ختم کرنے کی کوئی قابلِ ذکر کاوش نہ کی گئی۔ اگلی باری کا انتظار کرنے والوں میں سرفہرست مسلم لیگ نون تھی جس کے پاس پنجاب حکومت کی صورت میں ملک کے بڑے حصے پر اقتدار بھی موجود تھا ا س نے لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں سڑکوں کی تعمیر اور تزئین و آرائش ضرور کی لیکن غریب کی روزی روٹی کے لئے کوئی قابل ذکر حل پیش نہ کرسکے۔ بہانہ یہ تھا کہ چونکہ مرکزی حکومت ہمارے پاس نہیں اس لئے معاشی پالیسیاں ہم نہیں بنا سکتے۔ 11 مئی کے الیکشن کے نتائج اگرچہ متنازعہ تھے مگر جیسے تیسے نون لیگ کو بھاری اکثریت کے ساتھ مرکز اور پنجاب میں نمائندگی ملی اور اس نے مرکزی اور صوبائی حکومت اس دعوے کے ساتھ تشکیل دی کہ اب ’’طاہر لاہوتی‘‘ نے چونکہ شیر کو اپنا نمائندہ بنا لیا ہے اس لئے اب سارے کشکول بھی ٹوٹ جائینگے اور ملک ترقی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کر دے گا۔ مگر یہ کسے معلوم تھا کہ جس شیر سے بہادری اور خود داری کی توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ محض دو ماہ میں کاغذی ثابت ہو جائیگا۔ چنانچہ آج جب سال 2013ء ختم ہوچکا ہے اور ہم عمر مستعار کے اگلے سال میں قدم رکھ چکے ہیںتو زندگی پہلے سے زیادہ اضطراب کا شکار ہے۔ ان چھ سات ماہ میں بے بس عوام کو ڈالر سمیت پٹرول، ڈیزل، گیس اور خوردنی اجناس کی قیمتوں میں ہر روز اضافہ مل رہا ہے۔ یوٹیلٹی بلز اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ لوگ بچوں کے پیٹ کاٹ کر بل ہی بھرتے بھرتے تھک چکے ہیں۔ پاکستان کو ایشیاء کا ٹائیگر بنانے والے میاں صاحب اب طویل چپ سادھ کر ایوان اقتدار میں تشریف فرماہیں یا پھر سرکاری فنڈ سے مہمانوں کو کھانے کھلانے جاتی عمرہ آ جاتے ہیں۔ ۔
زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حدوں کوچھو رہے ہیں۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت پر کنٹرول نہ کیا گیا تو پاکستانی کرنسی عراق ایران اور افغانستان کی طرح لوگ بوریوں میں بھر کر پھریں گے۔ تسلسل کے ساتھ قومی اداروں میں اکھاڑ پچھاڑ کی وجہ سے بیوکریسی میں بھی عدم اعتماد کی فضاء قائم ہوگئی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا خواب اب مزید الجھ گیا ہے۔ دہشت گردی نے امن و امان کیساتھ انوسٹمنٹ کو بھی مفقود کر دیا ہے۔
یہ وہ حالات ہیں جن کے باعث ملک میں یخ بستہ سردی کے باوجود سیاسی ہلچل اور گرمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ لاہور میں مہنگائی کیخلاف PTI اور PAT کی طرف سے یکے بعد دیگرے دو بڑے احتجاج عوامی غیض و غضب کے اظہار کی خطرناک علامت ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے اتوار 29 دسمبر مال روڈ لاہور پر ہونے والا احتجاج بلاشبہ غیر معمولی تھا۔ ویسے بھی عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری اب ’’کروڑ نمازیوں کی جماعت‘‘ کا اعلان کر چکے ہیں۔ جسے وہ ملک میں موجود سیاسی نظام میں تبدیلی کی بنیاد قرار دے رہے ہیں ۔ دوسرے معنوں میں وہ اب انقلاب کے سفر پر روانہ ہو چکے ہیں۔ اسکے اثرات کیا ہونگے؟ یہ تحریک کس حد تک موثر ہوگی ان سوالوں کا جواب وقت خود بتائے گا۔ لیکن عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ یہ احتجاج گذشتہ سال 23 دسمبر کو مینار پاکستان پر ہونیوالے بہت بڑے اجتماع کی طرح کافی موثر اور منظم تھا اسکی تعداد چاہے جتنی بھی ہو مگر یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی حکومتی پارٹی لاہور جیسے شہر میں اتنا بڑا اجتماع کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
باخبر ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ PAT اور PTI کے اعلی سطحی رابطے مضبوط ہو رہے ہیں۔ PTI کے جیالے بھی عمران خان کی انقلابی قیادت میں تبدیلی کا نعرہ لے کر نکلے ہیں اور PAT کے لوگ تو ہیں ہی سراپا انقلاب۔ دونوں کے درمیان اگر کسی بھی سطح پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو یہ قوت عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ تاہم عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں بعض لوگ چونکہ سیاسی مصلحتوں میں پلے بڑھے ہیں اس لئے وہ اس اتحاد سے شاید گریز کریں گے۔ ملک میں نظام انتخاب کی جن خرابیوں کی طرف ڈاکٹر صاحب نے گذشتہ سال قوم اور بالخصوص عمران خان کو متوجہ کیا تھا ان کا عملی تجربہ کرنے کے بعد عمران خان نے بارہا ڈاکٹر صاحب کی بات پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔
دونوں جماعتوں اور قیادتوں کے درمیان اگرچہ مشترکات بھی ہیں مگر انکے اجزائے ترکیبی میں خاصا فرق ہے، مثلا PTI میں متحرک لوگوں کی اکثریت مختلف سیاسی جماعتوں سے ہو کر اپنی قسمت آزمانے عمران خان کی سونامی میںشامل ہوئی ہے مگر ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکن شروع سے مذہبی اور ملکی فریضہ سمجھتے ہوئے ان کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ عمران الیکشن کمیشن کی دھاندلی کا دکھ سمیٹ کر بھی اسی نظام سے جمہوریت کے پودے پر پھل کی امید لگائے بیٹھے ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحب نے علمی اور عملی دلائل اور شواہد کی بنیاد پر اس نظام کو ختم کرکے نئے ڈھانچے کی بات کی ہے۔ اس سے قبل وہ متناسب نمائندگی کے نظام انتخاب کی بات بھی کر چکے ہیں مگر کل کے خطاب میں انہوں نے ایک خالص انقلابی لیڈر کے لہجے میں مقتدر سیاسی خاندانوں اور قوتوں کو سخت پیغام دیا ہے۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اگر وہ عوام کو اسی طرح انقلابی تبدیلیوں کی طرف آمادہ کرتے رہے تو موجودہ مہنگائی اور تباہ کن مسائل انکے کام کو آسان کر دینگے اور حکومت تمام وعدوں اور دعووں کے باوجود عوام کو آئندہ الیکشن تک گھروں میں نہیں روک سکے گی۔ آئندہ سال کے سیاسی موسم میں حکومت کی کارکردگی بنیادی رول ادا کریگی، اگر لوگ کسی ٹھوس تبدیلی کا مشاہدہ کریں گے اور انہیں زندگی کی تلخیوں میں کسی قدر اطمینان کا احساس ہو گیا تو انقلاب کی ہوا خود سرد پڑ جائے گی لیکن بدبودار نظام پر پروان چڑھنے والے درختوں سے میٹھے پھل کی امید کم ہی نظر آتی ہے۔ ان احوال اور امکانات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نیا سال سیاسی گہما گہمی کا سال ہوگا۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کروڑ نمازیوں کی ’’جماعت‘‘ لے کر اسلام آباد میں پھر جلوہ افروز ہونے میں کامیاب ہو گئے تو یہ پہلے مارچ سے مختلف منظر ہوگا۔