پاکستان کی تخلیق قائداعظمؒ کا کارنامہ ہے: جسٹس (ر) اللہ نواز
لاہور(خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں اللہ نواز نے کہا ہے کہ پاکستان کی تخلیق قائداعظمؒ کا کارنامہ ہے۔ انکے بغیر پاکستان وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ ہم نے قائداعظم محمد علی جناح سے اپنا ناطہ 1954ء میں اس وقت توڑ لیا تھا جب چیف جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ جناح کے فیصلوں اور اصول کی پابندی لازم نہیں ہے۔ ہم نے 1954ء میں قائداعظم سے ناطہ توڑ کر آمریت سے ناطہ جوڑ لیا۔ قائداعظمؒ سیکولر نہیں تھے۔ آج کا پاکستان قائدکا پاکستان نہیں غلام محمد کا پاکستان ہے جو انگریزی کی بیوروکریسی کا حصہ تھا۔ وہ گزشتہ روز حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ میں ’’قائداعظمؒ اور تصور جمہوریت‘‘ کے موضوع پر مجلس مذاکرہ سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریب سے پروفیسر نعیم مسعود اور دلاور چودھری نے بھی خطاب کیا۔ نظامت کے فرائض ابصار عبدالعلی نے ادا کئے۔ جسٹس (ر) میاں اللہ نواز نے مزید کہا کہ قائداعظمؒ راز کو راز رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ٹی بی کی بیماری کو چھپا کر رکھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے بعد میں تسلیم کیا کہ اگر علم ہوتا کہ جناح اتنے بیمار ہیں تو ہندوستان کی تقسیم میں تاخیر کر دیتے۔ ان کے جذبہ، ہمت، جرأت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہاکہ 1954ء میں پاکستان کا آئین بن چکا تھا۔ غلام محمد، سکندر مرزا اور چودھری محمد علی نے اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں آج تشدد کی لہر جناح سے ناطہ توڑنے کی وجہ سے ہے۔ ہمیں فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہو گا۔ فاٹا کو یا الگ صوبہ بنائیں یا صوبہ سرحد کا حصہ بنا دیں تاکہ ان کا مسئلہ حل ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیںسب کچھ دیا ہے، ہم اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے کہا کہ آج قائداعظمؒ کو زبردستی سیکولر بنایا جا رہا ہے۔ قائداعظمؒ نے کبھی سیکولر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک اسلام کے نام پر قائم کیا۔ قائدؒ کا ہر ایکشن علامہ اقبالؒ کی فکر کی تعبیر ہے۔ انہوں نے کہا بھارت سے اچھے تعلقات رکھیں مگر اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کی برسی کیلئے خصوصی ٹرینیں چلائی جاتی ہیں۔ قائداعظمؒ کے یوم پیدائش پر کراچی تک خصوصی ٹرینیں کیوں نہیں چلائی جاتیں۔ 25 دسمبر کو جشن کی طرح منایا جائے۔ ہمیں قائدؒ کے دن کو عید کے دن کی طرح منانا چاہئے۔ یونیورسٹیوں اور سکولوں کے طلبہ کو خصوصی ٹرینوں میں مزار قائدؒ لیجایا جائے۔ طلبہ کو بین الصوبائی تبادلے ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارا کوئی رہنما نہیں ہے، کوئی کعبہ نہیں ہے، ہم نے قائدؒ کو اور انکی فکر کو چھوڑ دیا ہے۔ زیارت میں قائداعظمؒ کی آخری آرامگاہ کو جلائے جانے پر ہم سڑکوں پر نہیں نکلے۔ انہوں نے کہاکہ میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں۔ وہ مسلم لیگ کے وزیراعظم ہیں انہیں 25 دسمبر کو مزار قائدؒ پر ضرور حاضری دینی چاہئے تھی۔ پروفیسر نعیم مسعود نے کہا کہ قائداعظمؒ مسلمانوں کو مغلوب نہیں غالب دیکھنا چاہتے تھے، وہ سیکولر نہیں تھے۔ وہ محمود و ایاز والی جمہوریت چاہتے تھے مگر آج ہم نے ’’انجینئرڈ جمہوریت‘‘ پال رکھی ہے، قائداعظمؒ کو بھلا دیا ہے جبکہ موجودہ حکمرانوں کے قول فعل میں تضاد ہے۔ آج کے قائداعظمؒ ثانی خود کو شاہ پاکستان سمجھتے ہیں۔ دلاور چودھری نے کہا کہ قائداعظمؒ اللّوں تللوں پر سرکاری پیسے کا ضیاع پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ پاکستان کو اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے۔ 11 اگست کی قائد کی تقریر کا مقصد یہ کہنا تھا کہ ملک میں موجود تمام اقلیتوں کو ساتھ لیکر چلیں گے۔ آج ہم قائداعظمؒ کے تصور جمہوریت سے بے بہرہ ہو چکے ہیں۔ اور اسے اپنانے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم میرٹ پر یقین نہیں رکھتے۔