• news

گوشوارے میڈیا میں آنے پر تحفظات، سیکرٹری خزانہ، چیئرمین ایف بی آر آج پی اے سی میں طلب

اسلام آباد (خبرنگار خصوصی + آن لائن) قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے ارکان پارلیمنٹ کے میڈیا میں ٹیکس تفصیلات آنے اور ابہام پھیلانے پر سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر کو آج طلب کرلیا ہے جبکہ ارکان کمیٹی نے کہا ہے  ہم بڑے بڑے معاملات دیکھنے آئے ہیں اس لیے چھوٹے معاملات نہ لائے جائیں ۔ کمیٹی نے ریڈیو پاکستان کی جانب سے ورلڈ کپ 1999ء کی نجی کمپنی سے کوریج کے حقوق لینے پر 30ہزار ڈالر کے نقصان کا معاملہ قومی احتساب بیورو کے سپرد کردیا ہے ۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین  خورشید شاہ کی زیر صدارت منگل کو پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں الیکشن کمشن ، وزارت اطلاعات ونشریات کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا  ہم بلاامتیاز احتساب کو یقینی بنائیں گے ایسی مثال قائم ہوگی جو پہلے نہیں تھی ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا بھی درست رپورٹنگ کرکے اپنا فرض پورا کرے چاہے ماضی کے اعتراضات ہوں چاہے ہماری حکومت کے یا موجودہ دور کے اعتراضات ہوں ہم ایمانداری سے کام کریں گے ۔ اکائونٹنٹ جنرل نے کہا  اداروں کو بتانا ہوگا  طے شدہ بجٹ سے زیادہ اخراجات کیسے کئے۔ آن لائن کے مطابق  کمیٹی نے ارکان پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشواروں کے حوالے سے  کہا  ہم ٹیکس بھی جمع کراتے ہیں اور ٹیکس نمبر بھی موجود ہے مگر اس کے باوجود  ہمارے خلاف خبریں آرہی ہیں اس معاملے کو دیکھنا چاہیے ان خبروں کے پیچھے کون ہے ؟ کمیٹی نے پی ٹی وی کے گروپ 5اور اس کے افسران کی انشورنس کے معاملے پر وزارت قانون سے  رائے طلب کرلی ہے۔این این آئی کے مطابق  کمیٹی نے وزارت اطلاعات  اور ماتحت  اداروں کے حسابات  کا ورکنگ  پیپر فراہم نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا اور  پندرہ دن  میں تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس  میں آڈیٹر  جنرل اختر بلند رانا اور ایم  کیو ایم کے رشید گوڈیل  میںجھڑپ ہوئی۔ آڈیٹر جنرل نے کہا  جب میں بات کیا کروں  تو شٹ  آپ  کال  نہ دی جائے جبکہ  ممبران کمیٹی نے  کہا شٹ آپ  کال نہیں دی بات کو گھمایا نہ جائے۔  آڈیٹر جنرل  آف پاکستان نے کہا ہمیں  بات کرنے کا پروٹوکول  بنانا  ہو گا ورنہ کام نہیں چلے گا۔  الیکشن کمشن کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ کے دوران سیکرٹری الیکشن کمشن نے بتایا  الیکشن کمشن کا بجٹ ون لائنر ہوتا ہے، ہم ہر شعبہ کیلئے رقم خود مختص کرتے ہیں، اس طریقہ کار کو تبدیل نہ کیا جائے ورنہ مسائل پیدا ہونگے۔ چیئرمین پی اے سی نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے تمام آڈٹ اعتراضات نمٹا دیئے۔  پی اے سی کے چیئرمین  خورشید احمد شاہ نے ہدایت کی  محکمانہ آڈٹ کے نظام کو موثر بنایا جائے، آڈیٹر جنرل متعلقہ اداروں کو 15 دن پہلے ان کے آڈٹ اعتراضات سے آگاہ کریں۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا  برطانیہ میں 1999ء میں کرکٹ ورلڈ کپ کے نشریاتی حقوق کی مد میں پی سی بی کو 30 ہزار ڈالر کا نقصان ہوا۔ ڈی جی ریڈیو نے بتایا  جس افسر کی غلطی سے یہ ہوا اس کو چارج شیٹ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے پی اے سی کو اس معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ پڑھ کر سنائی تاہم پی اے سی کے ارکان نے کہا  ہم اس تحقیقاتی رپورٹ سے اتفاق نہیں کرتے۔ ڈی جی ریڈیو نے بتایا کہ 30 ہزار ڈالر جرمانہ دینے کے باوجود پی بی سی نے ایک کروڑ 30 لاکھ روپے کا منافع کمایا۔ خورشید  شاہ نے کہا  کسی اور کو فائدہ پہنچانے کیلئے غفلت کا مظاہرہ کیا گیا، ہم 30 ہزار ڈالر کی رقم معاف نہیں کر سکتے۔ پی اے سی نے یہ معاملہ نیب کے سپرد کرتے ہوئے ہدایت کی  دو ماہ میں اس معاملے کی ازسر نو تحقیقات کر کے پی اے سی کو رپورٹ پیش کی جائے۔  ’’اے پی پی‘‘ کے   آڈٹ اعتراضات  کے جائزے کے دوران پی اے سی کے استفسار پر ایم ڈی اے پی پی نے بتایا ایک سابق ڈی  جی  کے دور میں فنڈز  کی کمی کی وجہ سے ایمپلائز کا فنڈز  استعمال کیا گیا۔  انہوں  نے کہا کہ اب بھی جن لوگوں کو مستقل کیا گیا ہے  ان کی تنخواہوں  اور مراعات  میں بجٹ کی کمی ہے۔  خورشید  احمد شاہ نے کہا سابق   ایم ڈی اس دنیا میں نہیں رہے اس  لئے  اس معاملے کو نمٹانا ہی بہتر ہے، ایم ڈی اے پی پی نے یقین دلایا  آئندہ اس حوالے سے  احتیاط  برتی جائے گی۔ علاوہ ازیں اجلاس میں آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا اور ایم کیو ایم کے ممبر عبد الرشید گوڈیل کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا اجلاس میں بات کر رہے تھے کہ انکی بات کو کاٹ کر عبد الرشید گوڈیل نے اپنی بات شروع کردی جس پر بلند اختر رانا نے کہا کہ میری بات کاٹ کر مجھے شٹ اپ کال دی گئی ہے جس پر عبد الرشید گوڈیل نے کہا کہ میں نے شٹ اپ کال نہیں دی جس پر دونوں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ خیال بھی ہوا۔

ای پیپر-دی نیشن