اک اورگزاریںگے گزارا ہوا سال
اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو میں کہوں گا کہ2013ء کا سب سے زبردست جملہ چودھری شجاعت کا ہے۔’’جنرل مشرف، ان کی کابینہ، ممبران قومی اسمبلی، پاک فوج اور مجھ پر بھی ’’غداری کیس‘‘ چلنا چاہئے۔ میں ایمرجنسی کے حق میں تھا۔ ’’مشرف نے سب سے مشاورت کی‘‘ اس سے زیادہ کھلم کھلا بے ساختہ اور برجستہ اظہار بلکہ جرأت اظہار دوسرا کون سیاستدان کر سکتا ہے۔ اب بتائیں کہ کیا اکیلے جنرل مشرف کو سزا دی جا سکتی ہے۔ میں آنے والے دنوں کی بات بتلانے والوں کو نہیں جھٹلا سکتا۔ ان کی باتیں غلط بھی ہوتی ہیں مگر میں جانتا ہوں کہ کئی باتیں حرف بہ حرف سچ نکلیں ماہر علم نجوم روحانی شخصیت نوائے وقت کے کالم نگار یاسین وٹو اور شاہ انتظار زنجانی نے صاف کہا ہے کہ مشرف اپنی آزمائش سے نکل جائے گا۔ تو پھر نواز شریف کی آزمائش نہ شروع ہو جائے، اسے غدار نہ کہو اور یہ بتائو کہ جب کوئی اقتدار میں ہوتا ہے تو اس پر مقدمہ کیوں نہیں چلایا جاتا۔ تب تو وہ غدار نہیں تھا؟ فیس بک کا تو ایک بہانہ بنایا گیا ہے۔ مشرف خود آیا نہیں لایا گیا ہے۔ بھجوایا گیا ہے۔ اس بہانے پاک فوج کو ذلیل و رسواکرنا مقصود تھا۔ وہ سارے میڈیا نے خوب کر لیا۔ بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بہت بھارتی لابیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں۔ ورنہ پیپلزپارٹی کے نام نہاد اپوزیشن لیڈر خورشید برملا یہ نہ کہتے کہ فوج واضح کرے کہ وہ مشرف کی حمایت نہیں کرتی۔ یہ بات فوج کو پھنسانے اور الجھانے کیلئے ایک سوچی سمجھی کوشش ہے ورنہ خواہش تو ہے۔ بلاول ایم این اے بنایا جائے تو خورشید شاہ سے جان چھوٹے مگر عمران خان سے کیسے جان چھوٹے گی؟ بلاول ابھی سے عمران کا اپوزیشن لیڈر بنا ہوا ہے۔ خورشید شاہ جب تک ہے اسے مفاہمتی اپوزیشن لیڈر نہ بننے دیں۔
2014ء میں ایسی ساری خواہشوں کی ہوا نکل جائے گی۔ اس کی تشریح بھی کسی علم نجوم کے ماہر سے کرائی جائے۔ انتظار زنجانی نے کیا خوب بات کی ہے کہ پاکستان میں سب مارشل لا منگل کے روز لگائے گئے۔ منگل کا روز صدقے کا دن ہے اور ہم نے گوشت کا ناغہ کر رکھا ہے اس دن جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی کیوں ہے؟
حکمرانی اور من مانی کے دوران جنگل میں منگل کرنے والوں کو کیا معلوم ہے کہ منگل کا دن کتنا اہم ہے۔ ہفتے منگل کے دن پر پابندی لگائی جائے… جمہوریت زندہ باد۔ انتظار زنجانی کہتے ہیں کہ نواز شریف کے حلف کا وقت شُدھ نہیں تھا اور سامعہ خان کہتی ہے کہ حکومت پانچ سال پورے نہیں کرے گی۔ 2014 کے لئے یاسین وٹو کہتے ہیں کہ مریم نواز شریف سب نوجوانوں پر بازی لے جائے گی۔
شیخ رشید سے کوئی بڑا نجومی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ نئے سال میں نوازشریف چھا جائیں گے یا گھر جائیں گے۔ مشرف کو سزا ہو یا نہ ہو وہ باہر چلے جائیں گے، سعودی عرب امریکہ اور چین اسے لے جانا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور سعودیہ کیلئے تو سب لوگ متفق ہیںچین کی مشرف کیلئے دلچسپی سمجھ میں نہیں آئی۔ شیخ صاحب مشرف کے وزیرشذیر تھے۔ ان سے کون بحث کرے؟ لوگ ان سے اتفاق کریں یا نہ کریں۔ انہیں سنتے بہت دلچسپی سے ہیں۔ ان کے جملے اور حملے میں کم کم فرق ہوتا ہے۔ میں نئے سال کیلئے لکھ رہا ہوں۔ شیخ صاحب نے کیا بات کی ہے اس پر غور کرو اور کرتے رہو۔ انہوں نے کہا ’’وہ کہتا رہا کھپے کھپے کھپے یہ کہتا رہا ٹھپے ٹھپے ٹھپے‘‘۔ تو مجھے ان کا یہ جملہ بھی بہت پسند آیا ہے جو 2013ء کیلئے بھی ہے اور 2014ء کے لئے بھی ہے۔ ہمارے لئے تو پاکستان میں گزرنے والے سارے سال ایک جیسے ہیں۔ زندگی ٹھہری ہوئی ہے مجھے اپنا ایک شعر یاد آ رہا ہے؎
ہے دل پہ انتظار کا تالا لگا ہوا
عمریں گزر رہی ہیں فقط ایک سال سے
میری عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے مگر لگتا ہے کہ ساٹھ سال ایک ہی سال میں گزر رہے ہیں۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔
شیخ رشید کا اپنا بیٹا نہیں ہے ورنہ وہ یہ جملہ کیوں کہتے جن کے بیٹے بیٹیاں ہیں وہ حکومت میں شامل ہیں۔ تجارت میں بھی شامل ہیں سیاست اور تجارت میں فرق نہیں رہا ہے۔ جتنے سیاستدانوں میں حکمران ہیں۔ انکے بیٹیوں سے کون واقف نہیں ہے مگر کسی فوجی حکمران کے بیٹے اور بیٹی کا نام بتائیں؟ جنرل مشرف کے بیٹے کا یا بیٹی کا نام کیا ہے۔ مجھے بھی معلوم نہیں ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے بیٹے کے نام کا علم ان کی زندگی میں کم کم لوگوں کو تھا۔ ان کے مرنے کے بعد اعجاز الحق کو نواز شریف نے وزیر بنایا پھر وہ جنرل مشرف کا وزیر بھی بن گیا۔ ان کا نام ہر روز اخبار میں آ جاتا تھا۔ جنرل ایوب کے بیٹے گوہر ایوب سے لوگ نفرت کرتے تھے اس نے مادر ملت کے خلاف کراچی میں جلوس نکالا اورگندی باتیں کیں گوہر ایوب کو لوگوں نے غصے میں گوبر ایوب کہنا شروع کر دیا تھا اسے بھی نوازشریف نے وزیر بنایا۔
شیخ رشید بڑا دبنگ آدمی ہے شرط ہے کہ وہ وزیر نہ ہو اس کا یہ زمانہ اس کے سارے زمانوں سے بہتر ہے؟اس نے کہا ’’اپنا بیٹا روئے تو دل میں درد ہوتا ہے۔ غریب کا بیٹا روئے تو سر میں درد ہوتا ہے‘‘۔پاکستان میں کوئی سال ایسا نہیں آیا کہ ہمارے حکمران ایسے درد دل اور ایسے درد سر سے بچ کر رہے ہوں۔ 2014ء میں بھی یہی ہو گا جو 2013 میں ہوا اور جو 2013 میں وہ2012ء میں ہوا تھا۔ 2013 کیلئے ایک دوست کا تبصرہ بہت زبردست ہے دو ہزار تیرہ نہ میرا نہ تیرا… کوئی سال بھی ہمارا نہ تھا۔ ہم ایک ٹھہرے ہوئے لمحے میں گزر رہے ہیں۔ صبح و شام کی قید میں زندگی بیت رہی ہے۔ کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ اب تو لگتا ہے کچھ بھی پرانا نہیں ہے۔ اب نئے پرانے کی تمیز ہی نہیں رہی ہے۔ وہی حکام ہیں وہی عوام ہیں۔ اب تو ہم فائدے نقصان کے احساس سے بھی آگے نکل آئے ہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں۔
ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے بہت پرانا ہے مگر نیا لگتا ہے۔ ہمارا حال بھی ایسے ہی لطیفے جیسا ہو گیا ہے۔ ایسے لطیفوں کیلئے کہتے ہیں کہ ان کی مونچھیں بھی سفید ہو گئی ہیں۔ میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی نے شاعری کے ایک چودھری نثار کے لئے کہا کہ تم نوجوان شاعر بنتے ہو۔ تمہاری وگ کے بال بھی سفید ہو گئے ہیں یہ لطیفہ ہے کہ سن کر رونے کو جی چاہتا ہے۔ مصیبت کے مارے کسی غریب نے نجومی کو ہاتھ دکھایا تو اس نے کہا۔ تمہارے حالات ساٹھ پینسٹھ سال تک ایسے ہی رہیں گے اور پھر …؟ وہ آدمی تڑپ اٹھا تو پھر کیا ہو گا؟ نجومی مسکرایا اور کہا پھر تم اس کیلئے عادی ہو جائو گے۔ ہم ذلت اور اذیت کے عادی ہو گئے ہیں بلکہ عادی مجرم ہو گئے ہیں۔ بری عادتیں جب پختہ ہو جائیں تو وہ جرم بن جاتی ہیں۔ ہم جرم بھی کر رہے ہیں اور ظلم بھی کر رہے ہیں، مظلوم ظلم بھی اپنے اوپر کرتا ہے۔
کئی لوگ ہیں جو 2014ء میں فوج کے کسی نہ کسی شکل میں آ جانے کے منتظر ہیں مگر فوج بھی آ کے کیا کرے گی۔ پہلے بھی فوج آئی تو پھر حکمرانوں کیطرح موج کر کے چلی گئی۔ حکمران ہمارے ہاں ایک جیسے ہوتے ہیں۔
فوجی ہوں یا سیاسی ہوں۔ نئے سال کے حوالے سے معروف شاعر ناصر بشیر نے اپنے کچھ اشعار مجھے بھجوائے ہیں؎
سچ کہوں خون تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
اے نئے سال ترے پاس نیا کچھ بھی نہیں
وہی ہے مہرِ زمانہ وہی سرد ہوا
جنوری وعدۂ فردا کے سوا کچھ بھی نہیں
پہلے بھی تو نے دلائی تھیں بہت امیدیں
منتظر ٹھہرا رہا اور ہوا کچھ بھی نہیں
نجانے حکمران نواز شریف اورہمنوا کہاں نیا سال منائیں گے۔ میڈیا پر نئے سال کو خوش آمدید کہنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وہی لوگ نئے سال کے فائدے پچھلے سال کی طرح اٹھا سکیں گے جو خوش آمدید اور خوشامد میں فرق نہیں کرتے۔ مجھے نوابزادہ نصر اللہ یاد آ رہے ہیں۔ ان سے نیاز مندی تھی مگر میں انہیں بابائے جمہوریت ماننے کیلئے تیار نہیںہوں۔ وہ شعر وشاعری کا بہت اچھا ذوق رکھتے تھے۔ بوڑھے ہو گئے تھے کسی نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ زندگی ایک تصویر کی طرح ہے جسے دیکھ دیکھ کر تنگ آ گئے ہیں۔ انہوں نے ایک شعر پڑھا جو بہت حسب حال ہے۔ وہ لوگ اس پر غور کریں جو حاصل ہو چکی چیزوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش میں مبتلا ہیں اور پوری ہو چکی خواہشوں کیلئے دوبارہ کوششوں کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا پیٹ ہی نہیں بھرتا کہ آنکھوں کی بھوک مرتی ہے، وہ جیت کر بھی جیتے ہوئے نہیں ہیں؎
اپنی قسمت میں لکھا ہے جو یہ ہارا ہوا دن
چلئے اک اور گزاریں گے گزارا ہوا دن